رسموں کو رواجوں کو بدل جائیں گے اک دن

رسموں کو رواجوں کو بدل جائیں گے اک دن
اس زہرِ طریقت کو اگل جائیں گے اک دن

ممکن ہے کہ اک سانس کی مہلت نہ ملے اب
دنیا کے جھمیلوں سے نکل جائیں گے اک دن

وہ خوابِ شکستہ ہے یا تعبیرِ مسلسل
ہم اس کی حرارت سے پِگھل جائیں گے اک دن

وہ شخص نہیں واقف آدابِ محبت
ہم اس کے خیالات بدل جائیں گے اک دن

ہر شاخِ ثمربار کا رس چوسنے والے
ان کاغذی پھولوں سے بہل جائیں گے اک دن

ہم حرف و حکایات کا سچ لے کے زباں پر
خورشید جہانتاب میں ڈھل جائیں گے اک دن

دنیا جِسے میخانہ سمجھتی رہی ساحل
اس کوچہء وحشت میں سنبھل جائیں گے اک دن

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر : ساحل منیر