تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری ٍرمضان المبارک کا پاک مہینہ نیکیوں کی موسم بہار ہے اسی کی وساطت سے یہ دردمندانہ عوامی اپیل ۔میاں صاحب آپ وہ خوش قسمت انسان ہیں جو کہ تیسری بار عالم اسلام کے واحد ایٹمی ملک کے وزیراعظم ہیں آپ عرصہ دراز سے سیاست کی خاردار وادی میںبگٹٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کی طرح رواں دواں اور مخالفین سے نبرد آزما ہیں۔جیت زیادہ آپ کی مقدر ٹھہری آپ ایک گوشت پوست کے گناہ گار مسلمان ہیں مگر سیاسی دائو پیچوںکے ماہر کی حیثیت سے آپ کا سیاسی میدا ن میں کوئی مقابلہ نہیں بھٹوصاحب کی حکومت کا تختہ الٹا تو وہ دارورسن کی وادیوں سے گزرتے ہوئے تختہ دار تک جا پہنچے۔آپ کا تختہ الٹا گیا آپ کو بکتر بندگاڑیوں میں پیشیوں پر لایا جاتا رہا۔آپ کال کوٹھڑی میں اکیلے پڑے رہے قدرت خدا وندی مہربان ہوئی آپ بذریعہ سعودی شہزاد گان ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب پہنچ گئے۔ معاہدہ عرصہ دراز تک خفیہ راز رہا۔
مگر پاکستانی عدالتوں سے دی گئی سزائیں بھی تمام معاف ہوگئیں ۔وہاں جا کر آپ نے سٹیل ملز لگالیں اور لندن میں بھی بعد ازاںکاروبار چمکنے لگے ۔بہر حال آپ سادہ لوح انسان تھے اور آپ کی ٹریننگ یا تربیت والدین نے کبھی بھی ان بنیادوں پر کی ہی نہیں تھی ۔آپ سخت دبائو کا شکار رہے وہیں غالباً آپ نے فیصلہ کر لیاکہ ملکی حالات کسی بھی وقت پھر نا گفتہ بہ ہوسکتے ہیں اس لیے ساری ذاتی جمع پونجی بیٹوں کو دیکر انھیں ملک سے باہر کاروبار میں مشغول کردیا جائے۔وہ یہاں کی سیاسی اونچ نیچ سے باہر رہیں گے اور خواہ مخواہ کی خود طلب کردہ تکالیف سے بھی بچے رہیں گے۔ہر باپ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل اور اپنے سرمایہ کا تحفظ چاہتا ہے اور یہی آپ نے بھی چاہا تھا۔
Press Conference
آپ کے بقول آپ نے کوئی غیر قانونی یاغیر اخلاقی کام نہیں کیا تھا۔آپ کے بیٹے نے بھی پاکستان سے باہر ہی پریس کانفرنس میں اس بات کو تسلیم کیا کہ الحمداللہ یہ آفشور کمپنیاں اور فلیٹ ہمارے ہیں ۔انسان خطا کا پتلااور آدم سے لیکر آج تک سارے انسان سوائے ان کے جنھیں خدائے عز و جل نے پیغمبر و نبی بنا کر بھیجا۔سبھی غلطیاں کرتے چلے آئے ہیںاور تا قیامت انسان خواہ کتنا ہی نیکو کار ہو جائے گناہ سر زد ہو جانا یا غلطی کرجاناتقاضائے بشریت اور انسانی فطرت ہے۔آپ سے بھی انسان ہونے کے نا طے غلطی ہو گئی۔خواہ آپ اسے اپنی خطا مانیں یا نہ مانیں بہر حال آپ نے اپنی جملہ رقوم باہر ٹرانسفر کرڈالیں جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آپ کئی سال تک ٹیکس صرف ہزاروں میں دیتے رہے جو کہ ریکارڈ پر موجود ہیں۔غلطی کرجانا آدم کی طرح انسانی فطرت کاتقاضاہے۔دوسرے انسان خواہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں اسے معاف نہیں کرتے ۔
مگر خدا تعالیٰ تو رحیم و کریم ہے۔وہ انسان کی خطائوں کو معاف کرڈالتا ہے آپ خدا کے حضور سر بسجود ہو کرجو بھی اور جیسا بھی جرم کیا ہے یا غلطی سے سرزد ہو گیا ہے۔اس کی دل کی گہرائیوں سے گڑ گڑا کر معافی مانگیں اور آپ سے دلی محبت کرنے والے عوام سے بھی اقرار کر لیویں کہ ہاں میں اقتدار چھن جانے کے بعدجن ناگفتہ بہ حالات سے گزراوہاں میں انڈرپریشر ہی اتنا ہو گیا تھا کہ سارا دھن و دولت باہر بھیج بیٹھاآپ نے بیرون ملک دل کا مکمل بائی پاس ساری شریانوں کا کروالیاہے آپ نے موت کو بہت قریب سے دیکھااور آپ اس کے منہ سے باہر آگئے یہ دنیا فانی ہے ہر کسی کو چلے جانا ہے۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اک اورگھٹادی
فرعون نمرود و شدادآخر جہنم واصل ہو کر رہے خدائی دعوے کسی کام نہ آسکے خدا کی نا فرمانیوں کی سز اپائی اور راندۂ درگاہ ہی ٹھہرے ۔سکندر اعظم جب مرا دونوں ہاتھ خالی تھے ۔خزانے اس کے کسی کام نہ آسکے ہر ڈکٹیٹر جب مرتا یا اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں قتل کرڈالا جاتا ہے تو اس کے جمع کردہ ہیرے جواہرات اس کی اولادوں کے کام نہ کبھی آسکے ہیں نہ کبھی آئیںگے ۔ہر ڈکٹیٹر آمر نے اپنی من مانیاں کی اور خدائی احکامات تک کی حکم عدولی کرتے ہوئے کسی ضابطے وقانون کی کوئی پرواہ نہ کی۔توجہ رہے کہ آخرت میں اگر ایک ثواب کی کمی کی وجہ سے جنت نہ جا سکنے کا مرحلہ در پیش آیا تو کوئی خونی رشتہ دار حتیٰ کہ سگا بھائی بہن ،ماں باپ بیٹا بیٹی بیوی وہ مطلوبہ ایک ثواب تک بھی لاکھوں منتوں سماجتوںکے بعد بھی نہیں دے گا ۔
Receivables
اس کے عظیم دربار میں جنت و دوزخ کے فیصلے اپنے ہی ذاتی اعمال کی بنیاد پر ہوں گے یا پھر وہ خوش قسمت کامیاب ٹھہریں گے جنھیں نبی اکرمۖ کی شفاعت نصیب ہہو گی ۔خدا کرے کہ آپ ، میں اور دیگر مسلمین اسی صف میں شامل ہوںدریں حالات آ پ کیوں خونی رشتوں کے لیے اپنا خون جلاتے اور سیاسی بلیک میلروں کے مطالبات کی منظوریوں کی رٹ لگارہے ہیں اور بڑے اونچے مہنگے ترین وعدے وعید کیے جاتے ہیں حالانکہ آپ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جس سربراہ کی ریپوٹیشن خراب ہو گئی تو پھر بیرونی ممالک سے ایڈ تو کیا چندہ تک بھی نہیں ملتا ۔آپ نے سابقہ ادوار میں”قرض اتارو ملک سنوارو” کے نام پر اربوں روپوں کی رقوم اکٹھی کیں اور آج تک ان کا حساب کتاب ہی قوم کو نہیں سمجھا سکے۔آپ جلسہ ہائے عام میںاربوں روپوں کی سکیمیں و مطالبات پورا کرنے کے لیے پیسہ کہاں سے حاصل کریں گے؟امریکہ تو کھرا چٹا جواب دے چکا جو ہماری جمع شدہ رقوم سے بھی ایف16طیارے تک دینے کو تیار نہ ہے۔
خود تو آپ اپنی یاا پنے بیٹوں کی آفشور کمپنیوں کو بیچ کر یہاں سرمایہ لاکر انکے شکم بھرنے اور مطالبات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز مہیا کرنے سے رہے کہ ایسا کوئی بھی نہیں کیا کرتا ۔مقتدر افراد تو سکیموں کی تکمیل پر اپنے نام کی تختی ہی لگوایا کرتے ہیں اور وہ بھی ٹھکیدار کے پیسوں سے۔ بعض وزرائ،ممبران تو کوئی منظور شدہ سکیم بھی اپنے علاقے میں چلنے ہی نہیں دیتے جب تک انھیں کل کا دس فیصد حصہ رقم نہ مل جائے اور “وہ بھی دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے”سیاسی اقتدار برقرار رکھنے کے لیے چھانگا مانگاسکمیوںپر ہی اربوں لٹائے جاتے تھے اور کوئی پو چھنے والا بھی نہ ہوتاتھا۔میڈیا محدود تھا اب صحافت ترقی پاکر چو تھا ستون بن چکی ہے اب کوئی بھی ہینکی پھینکی کرنے کی کوشش سے پہلے ہی پکڑ ا جاتا ہے آپ نے تین دفعہ وزارت عظمیٰ خوب انجوائے کرلی ہے۔اب بقیہ سال دو سال کا لالچ بالکل نہ کریں”دال پکائی جتن سے آیا کتا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجا”کی طرح پھر کہیں پورا مال ہی ضبط کرواکر جان بھی نہ چھوٹے۔میں اپنی56ساٍلہ اپوزیشن کی سیاسی زندگی میں اقتدار سے پہلا مطالبہ کر رہا ہوں کہ میاں صاحب بھریا میلہ چھوڑ د و وگر نہ اڑتی خاک سر پر پڑے گی اتنی بڑی بیماری اور آپریشن کے بعد آپ کواب صرف آرام ہی کرنا چاہیے۔خوامخواہ” عوامی محبت یاحکومت بچائو مال بچائو مہم “کی خاطر جلسے جلوسوں میں نہ جایا کرو کہ اس کا اب کوئی سیاسی فائدہ آپ کو نہیں پہنچے گا۔
Nawaz Sharif
وزارت عظمیٰ کی آپ جیسے شخص کے نزدیک اب پرِکاہ کے برابر بھی ویلیو نہیں رہی اسے دفع دور کردوکہ ویسے بھی اپوزیشن غالباً بھول گئی وگرنہ الیکشن کمیشن یا اعلیٰ عدالتوں سے آئینی دفعہ 62,63 کے تحت آپ کبھی کے ناہل ہو چکے ہوتے۔جو بھی نیا اسمبلی وزیر اعظم چنے گی وہ آپ کی تابعداریوں سے مفر نہیں کرسکتا آپ مانیں یا نہ مانیں ہم سیاہ و سفید آپ کو سمجھائے دیتے ہیں اگر آپ ایسا نہ کرسکے تو پھر سیاسی افرا تفری کا تماشہ دنیا دیکھے گی جس کے لیے ہمارے اندرونی وبیرونی حالات متحمل نہیں ہو سکتے کہ یہودی ۔بھارتی، امریکی تکون ہماری سا لمیت پر حملہ کرنے کے لیے تلی بیٹھی ہے۔ہماے ایٹمی اثاثے اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔