ہنگامہ ہے کیوں برپا

Amir Laquat

Amir Laquat

تحریر: محمد عرفان چودھری
یہ جو ہمارا سوشل میڈیا ہے نہ آخیر ہے کل پہلا روزہ تھا موبائل پہ وقت گزاری کرتے ایک خبر نظر سے گزری ”معروف عالم دین ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شہید ہو گئے ہیں” دل صدمہ سے لاچار ہوا ‘اِنا لِلہِ و اِنا علیہ راجٰعون’ پڑھا اللہ کے حضور اُن کی بخشش کی دُعا مانگی کہ ہم مسلمان جو ہیں نہ کمال کے ہیں جب انسان زندہ ہوتا ہے تو گالم گلوچ کرتے ہیں اور جب وہ انسان مر جاتا ہے تو مغفرت کی دُعا کرتے ہیں اور پاس سے ہی شہادت کا درجہ بھی عطاء کر دیتے ہیں کہ یہاں شہادت کی کوئی معتبر تشریح نہیں ہے خیر دُنیاداری ہے کچھ لمحوں کے لئے علامہ صاحب کے ماضی کے قصے یاد آنے لگے۔

جب وہ انعام گھر جیسے مشہور پروگرام میں اُن پر پیسہ لُٹانے لگتے جن پر اوپر والے کے ساتھ ساتھ نیچے والوں کا بھی خاص کرم ہوتا تھا ، رمضان المبارک کی برکت بھری ساعتوں میں پاک رمضان کی چوبیس گھنٹوں کی ٹرانسمیشن میں جب اُن کا روح پرور بیان دل کو معطر کرتا تھا، صبح پاکستان میں صبح صبح انوار کی بارش ہوتی تھی گویا حُوریں براہِ راست عرش سے فرش پہ آ گئی ہوں، اور عالم آن لائن میں اُن اُن لوگوں کو فکری مسائل کا حل ملتا تھا جن کو کبھی آخرت کی فکر لاحق نہیں ہوئی ہائے دین اور دنیا کا کیا حسین امتزاج تھے عامر لیاقت صاحب ، میں نے ساری عمر اُن جیسی شخصیت کبھی نہیں دیکھی اِک پل میں عالم دین کہ گویا ساری کائنات کی سچائیاں ، سارے راز اِنہیں پر افشاں تھے بچھڑے ہوئوں کو ملاتے تھے ، اِک سحر انگیز شخصیت واللہ جو اُن کے درشن ہوتے تو چودہ طبق روشن ہوتے، دوسرے پل میں مزاح نگار / اداکار/ فن کار ایسے کہ جن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں وہ بس اُسی کا ہو جائے، دیکھتے ہی دیکھتے ٹائم فکس کرلیتے۔

Pak Ramzan

Pak Ramzan

منہ پھٹ ایسے کہ دل کی بات اکثر منہ پہ کہہ دیا کرتے، گویا کے عمران صاحب کی بات ” کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے” کو کبھی خاطر میں نہ لاتے اگر ہم یوں کہیں کہ ایک نمبر کے نوٹنکی، بازیگر، بہروپیئے ، منچلے، دیوانے، درویش، عالم دین اور ولی اللہ ٹائپ تھے ڈاکٹر عامر لیاقت تو بے جا نہ ہوگا ہر طرح کے سانچے میں ڈھلنے والے پانی کی مانند اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے انٹر نیٹ کی مانند جس سے جیسا چاہو استعمال لے لو، ابھی اِسی کیفیت میں تھا کہ بجلی آگئی ٹی وی آن کیا تو سامنے ڈاکٹر عامرلیاقت حسین صاحب کارمضان پروگرام ” پاک رمضان” ناپاک عزائم کے ساتھ چل رہا تھا جس میں بڑے بڑے علماء سرِ خم کیئے ہوئے تھے لہذا فوراََ ریسرچ شروع کی تو پتہ چلا کہ عامر لیاقت صاحب ابھی زندہ ہیں اور درج بالا خبر کا تعلق اِسی پروگرام کے پرومو کے ساتھ ہے اور خیر سے پورا رمضان آپ کے روزے کو فُل انٹر ٹین رکھیں گے اسی خبر کے ساتھ میرے منہ سے کچھ اَن چاہے ارشادات نکلنے لگے کہ شیطان تو قید کر لیئے جاتے ہیں مگر اُن کے چیلے آزاد رہتے ہیں دوسرے ہی لمحے چینل تبدیل کیا تو آواز آئی۔
” ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے”
سیدھی بات دل کو لگی کہ خالی عامر حسین کے حوالے سے ہنگامہ کیوں ہو رہا ہے آپ جو بھی چینل لگا لو آپ کو ایک جیسا ہی سیٹ اپ ملے گا ، ہر چینل پرڈاکٹر عامرلیاقت حسین ہے جو سال کے گیارہ ماہ اخلاقیات سے عاری پروگرام چلاتے ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے میں نوٹنکی کر کے اخلاقیات کا درس دیتے ہیں میڈیا والے بھی کیا کریں کہ یہی اُن کی ریٹنگ بڑھانے کا سبب ہے اور ہمارے علماء کرام جن کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ ” جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم عطا کیا گیا خدا ان کے درجے بلند کرے گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

(المجادلہ- 11 )” نہ جانے کہاں دُبک کر بیٹھ گئے ہیںچند سالوں میں علماء کرام میں مال و دولت کا ایسا خمار چھایا ہے کہ بس بے علم لوگوں کے سامنے جی حضوری کر رہے ہیں کوئی عالم شراب کے نشے میں ٹُن ہے تو کوئی حرام کا پیسہ کھا کر پابند سلاسل ہے اور جب حق والے لوگ ایسے ہو جائیں تو بھولے بھٹکے لوگوں کی تعمیر گیارہ ماہ ناچ گانے کرنے والا میڈیا ہی کرے گا اس میں میری طرح حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے کے ہمارا تمام اسلامی طرز عمل ہی میڈیا کی بدولت ہے ہم میڈیا کے ذریعے آذان سُن کر سحری کرتے ہیں اورمیڈیا کے ہی ذریعے آذان سُن کر افطاری، ہماری نماز کا طریقہ میڈیا بتاتا ہے ،میڈیا پر ہی ہمیں درس ملتا ہے کہ عورت امامت کروا سکتی ہے اور کروا بھی رہی ہے، میڈیا ہی ہمیں سکھلاتا ہے کہ عورت بنا ڈوپٹے لئے یا سَر کا پف دکھا کر پانچ سو کا میک اپ (حالیہ کاسمیٹکس کی قیمت میں اضافے کی بنا ء پر آپ پانچ سو کو نو سو کہہ سکتے ہیں) لگا کر میڈیائی عالموں سے کیسے سوال کر سکتی ہے یہ میڈیا ہی ہے جس نے مجھے سارا کالم لکھنے پہ مجبور کر دیا کہ عامر لیاقت حسین انتقال کر گئے ہیں اور یہ میڈیا ہی ہے جس میں وہ کل بھی زندہ تھے اور آج بھی زندہ ہیں بس لوگوں کے ایمان مَر گئے ہیں جن کا جنازہ روز میڈیا پہ نکلتا ہے۔

Media

Media

یہ ساری کارستانی میڈیا کی ہی نہیں گردانی جا سکتی اس میں بڑی حد تک حکومت کا بایاں ہاتھ ہے (دایاں ہاتھ پانامہ کی صفائی کرنے میں مصروف ہے) جس نے کبھی بھی آج تک میڈیا سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ حضور ماہِ مقدس میں شیطان جکڑ لئے جاتے ہیں لہذا آپ بھی اس مقدس مہنیے میں کہیں گھوم پھر آئیں کہ لوگوں کو اس مہینے کی برکتیں لُوٹ لینے دیں مگر کیا کریں میڈیا کو اتنا مشورہ دینے والے خود لُوٹ کھسُوٹ میں مصروف ہیں ماہِ مقدس میں پھلوں کی اتنی قیمتیں کہ بیچارہ آم بھی شرما کے لال ہو جائے، تربوز مارے غصے کے پیلا ہو جائے، خربوزہ خریدار دیکھ کر رنگ بدل لے کہ آیا خربوزہ نہیں گرما ہے کیا کرے ایک ہی نسل کے دو پھل جو ہوئے خوبانی ایسی کہ ارمانی کمپنی کی ہو ، آلو بخارہ کی قیمت کہ آلوُ کو بھی بخار ہو جائے۔

ھلوں کی ایسی ایسی قیمتیں جیسے جنت کے باغات میں سے درآمد ہوئے ہوں اور جن تک رسائی کے لئے انسان کا مرنا شرط ٹھہرا ہو اس لئے انسان آہستہ آہستہ گھُٹ گھُٹ کر مر رہا ہے مگر میڈیائی اسلام کی بدولت اُمید کی جا سکتی ہے کہ مر کے کہ بھی ہمارا ہاتھ جنت کے پھلوں تک نہ پہنچ سکے گااس لئے اس ماہ مقدس میں میڈیائی اسلام کو فالو کرنے کی بجائے اصل اسلام کو فالو کریں ہنگامہ پرپا کرنے کی بجائے اپنے اپنے گھر کی سیف الماریاں کھولیں اور سب سے قیمتی چیز جس کو قرآن کہتے ہیں اُس کو نکالیں، غلاف کو صاف کریں اور اُس کو پڑھیں ، سمجھیں اور عمل کریں کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی کے ذریعے ہی ہم ہر اُس پھل تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں کہ جس کے خراب یا گلنے سڑنے کی قطعیََ کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی اُسے خریدنے کے لئے پیسے درکار ہوں گے۔

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر: محمد عرفان چودھری
ممبر پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ