تحریر : مدثر اسماعیل بھٹی ہمارا ملک پاکستان بھی قدرت کا ایک معجزہ ہے کیونکہ یہ دنیا میں واحد ملک ہے جو اللہ اور دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اسی ملک کے حصول کی خاطر تقریبا 6 لاکھ بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر جام شہادت نوش فرمایا۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا جس پودے کو پروان چڑھانے کیلئے ہم اپنا خون پلارہے ہیں وہاں ایسے لوگوں کا راج ہو گا جن کا دین ایمان صرف پیسہ ہو گا جو اپنے مفاد کی خاطر اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں زرا دیر نہیں لگائیں گے آخر انہی لوگوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا لیکن تب بھی اس مفاد پرست ٹولے کی ہوس ختم نہیں ہوئی اور دن بدن اقرباء پروری اور ایک ناسور کی طرح ہمارے ملک میں پھیلتی جارہی ہے بے گناہ لوگوں کی لاشوں پر سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
خوف اور دہشت کا ہر جگہ راج ہے قانون کو جاگیرداروں ،وڈیروں ،سیاستدانوں اور بااثر افرادنے اپنے گھر کی باندی سمجھ رکھا ہے ہر طرف ظلم وستم کا دوردورہ ہے لیکن انصاف کے منتظر انصاف کے منتظر ہی رہتے ہیں اگر کسی کو انصاف ملتا بھی ہے تو وہ بھی پانچ ،دس سال عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد آخر ایسا کونسا محکمہ ہے جس میں کرپشن کی جڑیں مضبوط نہیں ۔محکمہ آبپاشی ہو یا محکمہ جنگلات، محکمہ مال ہو یا محکمہ اوقاف ہو سرکاری ہسپتال ہوں یا سرکاری سکو ل غرضیکہ ہر جگہ ہر محکمہ میں باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ کا اصول نظر آئے گا۔
ہر طرف لالچی اور دولت کے پجاری دولت کے حصول کی خاطر اپنی رالیں ٹپکاتے نظر آئیں گے ،قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے ملک میں جتنے حکمران اور بیوروکریٹس آئے تو انکی اکثریت نے سوائے اپنی اپنی ذاتی آمدن بڑھانے ،بینک اکائونٹس بھرنے ،جائیدادیں جمع کرنے اور اس ملک کو کھوکھلہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ملک کو بکاریوں کی صف میں لا کھڑا کیا اور غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں ایسا پھنسا دیا کہ جہاں سے نکلنے کی امید دوردور تک نظرنہیں آتی کیونکہ نہ اس ملک سے کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ہو گا اور نہ ہی کرپشن کا،نہ سیاستدان سدھریں گے اور نہ ہی آمر ،نہ تو بیوروکریٹس اپنا رویہ بدلیں گے اور نہ ہی سرکاری اہلکار ۔یہ نظام دن بدن بد سے بدتر ہوتا چلا جارہا ہے کسی کو بھی اس ملک کی فکر نہیں۔
Money
کوئی نہیں سوچتا کہ جب یہ ملک ہی نہیں ہوگا تو افسری کیسی ۔۔۔۔۔۔پاکستان کے حصول کے لیے قربانیاں دینے والے لوگوں کو اگر پتا ہوتا کہ اس ملک کا بعد میں یہ حال کردیا جائے گا تو شاید وہ ہرگز اس ملک کی خاطر اپنی جائیدادیں اور جانیں قربان نہ کرتے ۔مجھے یقین ہے کہ روز آخرت وہ شہداء ہمیں گریبان سے پکڑ کر بارگاہ الہی میں دہائی دیں گے ۔ ویسے تو کرپشن کی بے شمار روایات اس ملک کے مختلف محکموں میں موجود ہیں اور کرپشن کی لاکھوں کاروائیوں میں ایک چھوٹی سی مثال ضلع جھنگ کے محکمہ صحت میں تعینات کلرک محمد خالد جوکہ عرصہ دراز سے ایک ہی جگہ کام کررہا ہے لگتا ہے کہ محکمہ صحت میں اس سیٹ پر لگنے کو کوئی تیار نہیں یا ملک محمد خالد کا دل نہیں کرتا اس سیٹ کو چھوڑ کر جانے کو ۔۔؟۔۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح TMAاحمدپور سیال جہاں کرپشن کنگ چوہدری عبدالرحمن جن کے متعلق بہت سی رنگین داستانیں لوگوں کی زبان پر ہیں کہ موصوف لوٹ مار کی پاداش میں جیل یاترا بھی کر چکے ہیں۔
اسکے علاوہ موصوف کو اپنی شامیں رنگین کرنے کا شوق بھی ہے اور اس طرح کے رنگین شوق ہی ان جیسے لوگوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں اور غلط کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ٹی ایم اے جھنگ کے مشہور کرپشن کے بے تاج بادشاہ محمد اکرم سابق سب انجینئر جس کوکرپشن کی وجہ سے ٹی ایم اے جھنگ سے بورڈ میں بھیج دیا گیا لیکن ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس کوچارج چھوڑے ہوئے 2ماہ سے زائدکا عرصہ ہوگیاہے مگر آج بھی بلدیہ جھنگ کے افسران اس کے بل پاس کررہے ہیں ذرائع کے مطابق محمد اکرم ایس ای کی خالی سیٹ پر محمد رمضان سب انجینئر کو اس کی تمام سکیمیں دے دی گئی لیکن پھر بھی بل سابقہ سب انجینئر محمد اکرم کے پاس کئے جا رہے ہیں اور باکمال افسرکرپٹ ایکسیئن چوہدری محمد اسلم جس نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کا خواب نہ پورا لیکن پیسہ لینا ہے پوراپورا چاہے کام نہ پورا جسکی مثال ذرائع کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک سکیم جو ہوئی بھی نہیں سائیڈ پر لیکن 90فیصد پے منٹ ہو گئی ہے۔
اگر آج ٹی ایم اے جھنگ میں سپیشل ٹیم کو بھیجا جائے اور سپیشل آڈٹ کروایا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ بلدیہ جھنگ میںپیسہ نہ ہونے کے باوجود بھی کوٹیشنوں کی بھرمار ہے ہوسکتا ہے اس آفس میں سرکاری اہلکاروں کو تنخواہوں کے لئے بھی پیسہ نہ ہو ۔کمال کی بات یہ ہے کہ متعلقہ محکمہ کے دیگر افسران بھی سب کچھ جانتے ہوئے لاعلم بنے ہوئے ہیں شاید اس لوٹ مار میں ان کا حصہ چپ چاپ ایمانداری کے ساتھ پہنچ جاتا ہوگا آخر بے ایمان لوگ آپس میں بڑی ایمانداری برتتے ہیں کیونکہ بے ایمانوں کے بھی اصول اور ضوابط ہوتے ہیں۔
Jhang
تعجب ہے کہ حکومت کی طرف سے ملنے والی ہزاروں روپے تنخواہ اور مراعات سے بھی محمد اکرم اور چوہدری محمد اسلم ودیگر افسران کا دل نہیں بھرتا ۔لگتا ہے کہ حرام کی کمائی منہ لگنے سے رزق حلال کی وقعت ہی نہیں رہی ایسے افسران کی نظر میں !!!!!موت کو بھول کر ان لوگوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔ذرا نہیں سوچتے کہ قیامت کے روز کیا جواب دیں گے۔حرام کی کمائی سے پلنے والی اولاد کیا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟ہرگز نہیں ،ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔جس اولاد کی خاطراپنی قبر انگاروں سے بھر رہے ہیں وہ اولاد روز آخرت کچھ نہ دے سکے گی۔
المیہ یہ ہے ہر طرف کرپشن کی صدائیں بلند ہورہی ہیں لیکن ایسا کوئی مرد حر نہیں جو عملی طور پر کرپشن کا خاتمہ کرے پھر بھی مجھے امید ہے کہ جب رات کی تاریکی گہری ہوجائے تو صبح ہونے والی ہوتی ہے ۔کوئی نہ کوئی تو ایسا محب وطن صاحب اقتدار ہوگا جو کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کرکے اس پیارے ملک کو ان کے خونی جبڑوں سے نجات دلائے گا۔۔۔۔۔