تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا مضان کے دوران کچھ چڑچڑے پن، پانی کی کمی، سینے میں جلن اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کمی سے ہٹ کر (جو کہ متوقع ہوتی ہے) یہ مہینہ کئی فوائد کا حامل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رازین معروف کے مطابق جسمانی وزن میں کمی سے ہٹ کر یہ جسمانی مضبوطی کے فوائد حاصل کرنے کے لیی بھی ضروری مہینہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رمضان کے دوران سحر اور افطار میں متوازن غذا کا استعمال صحت کے فوائد کے حصول کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ان کے بقول چونکہ روزوں میں مسلمان سورج طلوع ہونے سے لے کر غروب ہونے تک کچھ کھا پی نہیں سکتے تو جسم کے لیے ذخیرہ چربی کو توانائی کے حصول کے لیے جلانا آسان ہوجاتا ہے اور موٹاپے میں کمی آتی ہے۔اسی طرح پٹھوں میں مضبوطی آتی ہے، کولیسٹرول لیول گرتا ہے اور صحت مند غذا کے استعمال کو معمول بنانے سے ذیابیطس اور بلڈ پریشر پر بھی کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔
رمضان کے آغاز کے بعد کچھ دن جسم کھانے کے نئے اوقات کے لیے خود کو ایڈجسٹ کرتا ہے جس سے خون میں اینڈروفینز نامی کیمیکل کی مقدار بڑھتی ہے جو روزے داروں کو زیادہ چوکنا، خوش باش اور مجموعی طور پر بہتر ذہنی صحت کا احساس فراہم کرتا ہے۔انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ رمضان کے دوران تلی ہوئی غذا سے گریز کرنا چاہئے اس کے مقابلے میں افطار میں کھجور اور دودھ کے مشروبات کا استعمال کرنا چاہئے جو دن بھر کے فاقے کے بعد جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔اسی طرح زیادہ سے زیادہ پانی پی کر جسم میں اس کی کمی کی روک تھام کی جاسکتی ہے تاکہ کھانے میں بے اعتدالی سے بھی بچا جاسکے۔
Roza
دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میںبغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاًروزہ رکھتے ہیں تاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیںجسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل’ ڈاکٹر جوزف’ ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر’ڈاکٹر ایم کلائیو’ ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ’ڈاکٹر جیکب ‘ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ’ڈاکٹر برام جے ‘ڈاکٹر ایمرسن’ ڈاکٹرخان یمر ٹ ‘ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے روزہ شوگر لیول ‘کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیںجس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہیں بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلا مل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیںوہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیںان کو ضرور روزے رکھنا چاہیئے تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
روزہ موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام ہضم کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید کئی امراض کا علاج بھی ہے لیکن اس کے لئے ہمیں سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کرنا ہوگئی۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیاء مثلا ًسموسے’ پکوڑے ‘کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت نہیں ہوتا ۔ خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائد مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری کسی پھل ‘کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلی جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کرنے سے روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے
ڈاکٹر نوشین کے مضمون سے چند اقتباسات خون کی کمی ! ہڈیوں کے گودے میں خون کے ذرات بنتے ہیں۔جسم کی خون کی ضرورت کے مطابق ہڈیوں کے اندر خون کے نئے خلئے بنتے رہتے ہیں روزہ کے دوران خون کے گردش کرنے والے خلئے کم تر سطح پر آ جاتے ہیں جس سے گودے کے اندر خون کے خلیوں کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور نئے خلیئے زیادہ مقدار میں بنتے ہیں۔
بلڈ پریشر !روزے کے دوران خون کی گردش آہستہ ہوجاتی ہے۔اس لئے ہائی بلڈ پریشر کے افراد کے لئے روزہ بہترین علاج ہے۔عبادت کی وجہ سے مریض پُرسکون رہتا ہے جس سے ذہنی تناؤ اور ٹینشن جیسے اثرات سے بلڈ پریشر نہیں بڑھتا۔ نظامِ ہضم روزے سے معدے پر بے پناہ فوائد مرتب ہوتے ہیں۔معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیں?زیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے۔یوں نظامِ ہضم درست کام کرتا رہتا ہے۔
Sehri and Iftar
رمضان کے دوران کھانے پینے کے اوقات بدل جاتے ہیں۔اگر شروع رمضان سے ہی سحری اور افطاری میں معتدل کھانا پینا رکھا جائے تو جسمانی صحت کے لئے مثبت ہوتا ہے۔سحری کے وقت بہت زیادہ کھانے سے مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔عموماً پیٹ بہت زیادہ بھر لینے سے درد کی شکایت ہو سکتی ہے۔اسی طرح افطار کے وقت بہت زیادہ تلی ہوئی اشیاء کھانے سے یا ایک دم پیٹ بھر کر کھانے سے پیٹ زیادہ دیر تک بھرا تو رہے گا مگر طبعیت بوجھل رہے گی اور بھوک کا احساس کم ہو جائے گا۔ترش چیزیں کھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے اس سے پانی کی طلب بڑھے گی افطار کے وقت پھل اور پانی زیادہ لیں۔نماز ادا کرنے کے بعد کھانا کھا لیں تو بہتر ہے۔اس طرح وقفہ دینے سے پیٹ اچانک نہیں بھرے گا اور سحری تک کے لئے بھی پیٹ کو کھانا ہضم کرنے اور آرام کا موقع ملے گا۔ افطاری اور سحری میں کم پانی گردوں کے لئے نقصان دہ ہے۔سحری اور افطاری کے دوران کم از کم 8 گلاس پانی ضرور پیئیں۔
رمضان کے طویل اوقات کے دوران ریشہ والی غذائیں کھانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ریشہ والی غذا دیر سے ہضم ہوتی ہے جس کی وجہ سے پیٹ بھرا رہتا ہے اور بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔آہستہ ہضم ہونے والی اشیاء 8 گھنٹے اور جلدی ہضم ہونے والی اشیاء 4 گھنٹے میں ہضم ہوجاتی ہے اور بھوک کا احساس جاگ اُٹھتا ہے۔ دیر سے ہضم ہونے والی اشیاء میں غلّہ،بیج شامل ہیں جیسا کہ گیہوں،جئی،باجرہ،پھلیاں،مسور،بغیر چھنا آٹا،چاول،مٹر،مکئی،ساگ،پالک،چھلکے سمیت پھل،خشک میوہ جات،خصوصاً اخروٹ،انجیر،بادام،آلوچہ وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں کمپلیکس کاربوہائیڈریٹ بھی کہتے ہیں۔
مجھے لگتا ہے اللہ رب العزت کا جو فرمان ہے کہ میں 70ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ اللہ نے ہمیں پیارے نبی کی اُمت میں پیدا کر کے ، پھر جہنم کے ایندھن سے بچانے کے لئے اور جنت الفردوس میں محل بنانے کئے لئے امُت ِ محمدیہ کو رسالت مآب ۖ ، قرآن ِ فرقان اور رمضان دے کر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ یہ رمضان درحقیقت ” نعمت خداوندی ” ہے۔ اس لئے اللہ پاک کا جتنتا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے،
مضان کے دوران کچھ چڑچڑے پن، پانی کی کمی، سینے میں جلن اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں کمی سے ہٹ کرکمزوری ،لاغری یا اعصابی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ، ہزاروں میں گنتی کے دو چار کیس ایسے سامنے آتے ہیں جن کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ رمضان ” رحمت” نہیں بلکہ زحمت ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھہ بھی نہیں یہ ہماری بد اعتدالی اور کھانے ، پینے اور سونے جاگنے میں لاپروائی کا نتیجہ ہے جن کو تھوڑی سی احتیاط سے درست کیا جاسکتا ہے اور پھر ہر بشر ہی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی رمضان اللہ کی رحمت اور نعمت خداوندی ہے