تحریر : راحت ملک کہانی کار کے مطابق گائوں کے چوہدری کا تعلیم یافتہ بیٹا دوسرے گائوں کے چوہدری کی بیٹی پر فریفتہ ہوگیا اور شادی کیلئے ضد پر اڑ گیا جبکہ لڑکی کے والدین بوجہ رشتہ دینے پر آمادہ نہ تھے بیٹے کی ضد پوری کرنے کیلئے چوہدری نے آس پاس کے دیہات کے چوہدریوں کو اپنے گھر دعوت پر مدعو کیا اور رشتہ طے کرانے کیلئے تعاون کی درخواست کی چوہدری کے بیٹے کے اثرورسوخ اور تعلیم نے سب چوہدریوں کو تقاریب پر قائل کرلیا اور انہوںنے لڑکی کے والد کو رشتے کا مشترکہ پیغام بھجوادیا یہ صورتحال دیکھ کر لڑکی کا باپ بھی مجبوراً رشتہ دینے پر آمادہ ہوگیا رضا مندی کی اطلاع پاتے ہی چوہدریوں نے از خود اعلان کردیا کہ وہ فلاں دن بارات لے کر لڑکی والوں کے ہاں پہنچیں گے چنانچہ شادی کی تیاریاں زور وشور سے شروع ہونے لگیں۔
مقررہ تاریخ پر ڈھول باجوں کے ساتھ بارات لڑکی والوں کے گائوں کی سمت روانہ ہوئی لڑکے دوست بارات کے آگے آگے خوب ناچنے گانے گارہے تھے جب بارات لڑکی کے گھر پہنچی تو دلہن کے والد چوہدری صاحب نے باراتیوں سے استفسار کیا کہ دلہا کہاں ہے ؟تب باراتیوں کو احساس ہوا کہ وہ تو دولہے کو ساتھ لائے ہی نہیں ندامت اور پریشانی کے اس عالم میں باراتیوں اور ان کو جو سب سے آگے جوش وجذبہ کے ساتھ رقص کررہے تھے بتایا گیا کہ دلہا تو ملک سے باہر گیا ہوا ہے تب جو کچھ کیفیت باراتیوں پہ گزرتی اس کی روئیداد کہانی میں درج نہیں۔
البتہ سب جانتے ہیں کہ اس انجام کا مطلب اور اثر کیا مرتب ہوا۔اس سے مشابہ واردات پانامہ پیپرز کے مصنوعی بحران پیدا کرنے والے اور معزز افراد کے ساتھ پیش آئی تھی جنہوںنے گھن گرج کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ وہ فلاں تاریخ کو پارلیمان میں تب آئیں گے جب ان کی خواہش کی تکمیل کا یقین دلایا جائیگا اس بارات کے سر گرم شرکاء میں محترم اعتزاز احسن اور بے بی بلاول سب سے نمایاں تھے شاہ جی اور خان صاحب اور شیخ رشید تو خوب خوب رقص کناں تھے مگر جب ان کی بارات قومی اسمبلی پہنچی تو معلوم ہوا کہ پی پی نے جس بارات کا اہتمام کیا تھا اس کا اصل دلہا تو جناب زرداری ملک سے باہر تھے اور بذریعہ جدیذرائع مواصلات معاملہ طے کرچکے تھے۔
Maulana Fazlur Rahman
اللہ بھلا کرے مولانا فضل الرحمن جنہوںنے دلہا کا بذریعہ موبائل ہی عقد کرادیا جو کہانی اوپر قلمبند کی ہے وہ احباب کو گزشتہ 15 دن سے سنا رہا تھا اور میرا بنیادی خیال یہی تھا کہ بلاول سمیت تمام احباب محض باراتی ہیں دلہے کا کردار جناب آصف زرداری نبھائیں گے چنانچہ انہوںنے یہ فریضہ بھی بخوبی انجام دیا تھا اور اب سوال تو بارات نہیں سب سے آگے آگے چلنے والے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں کو درپیش ہے جو خوش فہمی میں خود کو ہی اپنی پارٹی کا دلہا سمجھنے لگے تھے۔وزیر اعظم نے بھی لاچاری کے عالم میںپارلیمان میں حاضر ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ جانتے تھے کہ اصل کردار کہاں ہے۔
لہذا انہوںنے اسی سے رابطہ کیا اور معاملہ فطری انجام کو پہنچا۔ کیا پانامہ پیپرز فی الوقت ہی حیرت انگیز انکشاف اور بحران پیدا کرنے والی دستاویز تھیں یا بحران پہلے سے ہی اس اقتصادی سانحے میں پایا جاتا تھا جس کے زیر سایہ ہماری ریاست جی رہی ہے؟آف شور کمپنیاں بنانا قانونی طورپر ممکن ہے اور اس کیلئے مخصوص ”خطبے ”موجود ہیں جو بے نامی جائیداد رکھنے خریدوفروخت کرنے کے علاوہ پھر وسیع سرمایہ کاری و تجارت کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور یہ سب کچھ سرمایہ داری نظام معیشت کا ناگزیر و لازمی حصہ ہے۔
یعنی ایک جانب ایسے ملکی و عالمی قوانین وضوابط آف شور کمپنیاں بنانے کی اجازت کی ترغیب دیتے ہیں اور دوسری طرف اسی نظام معیشت کے کچھ ضابطے سچ بولنے پر مجبور کرتے ہیں اس کے سادے معنی یہ ہونگے کہ ایک جانب کسی کو جرم کرنے پر آمادہ کیا جائے اور دوسری طرف پولیس کو بتا دیا جائے کہ فلاں شخص فلاں وقت مجرمانہ سرگرمی کا مظاہرہ کریگا انتخابی ضوابط تمام اثاثے بتائے جبکہ آف شور کمپنیاں بنانے کا نظام بہت سے اثاثے مخفی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
Panama Leaks
چنانچہ استبدلائی و عقلی مخمصہ یہ ہے کہ انتخابی قواعدکی پابندی کی جائے یا نظام معیشت کے مواقع سے استفادہ؟شور شرابہ کرنے والوں نے دلہے کیلئے ایک بار پھر استفادے کا موقع پیدا کردیا ہے دیکھیے اب کے این آر او سے کیا کچھ حاصل ہوتا ہے۔ حکمران جماعت سمیت تمام شور مچانے والی جماعتیں (باراتی) اس پر متفق نظر آئے تھے کہ مسئلہ کا حل نکالنے کی بجائے محض مستند اقتدار پہ ممکن چہروں کو بدلا جائے اور اس نظام معیشت کو برقرار رکھا جائے اگر حکمران اشرافیہ میں معاشی نظام برقرار رکھنے پر اتفاق نہ ہوتا تو وہ تحقیقات کیلئے مشترکہ و متفقہ ٹی او آرز بنانے کے برعکس فرسودہ غیر منصفانہ اور جرائم کی آماجگاہ معاشی سانچے کو بدلنے کی کوشش کرتے۔ سوال تو یہ بھی ہے جیسے وزیر اعظم کی اپیل نے طشت از بام کردیاہے کہ وہ کونسی قوت و عناصر ہیں جو حکومت کی گردن مروڑ نے کے آرزو مند ہیں کیا اپوزیشن جماعتوں بالخصوص دھرنا مجلس کے پیچھے اب بھی کسی کی سرپرستی موجود نہیں۔
وزیر اعظم نے آصف زرداری سے تعاون کی جو اپیل کی ہے وہ تو ایسے ہی کسی طاقتور سرپرست کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے ۔ میرا گمان یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی رائیونڈ یاترا کے بعد حکومت پر داخلی دبائو بڑھ گیا ہے وگرنہ اس دورے کے بعد مثبت پیش رفت تو نظر آتی۔ ممکن ہے کہ طاقتور حلقے سرخ لکیر پار کرنے کی بجائے سیاسی دبائو کے ذریعے کام چلانے میں سنجیدہ ہوں اور پانامہ پیپرز نے ان کیلئے بھی مواقع پیدا کردیئے ہیں۔
Law
پانامہ پیپرز معاشی نظام کی داخلی خامیوں فرسودگی اور لوٹ کھسوٹ کا داخلی بحرانی مظہر ہے یہ قانون کے برعکس اخلاقی بحران ہے اور اس بحران کو پیدا کرنے اور اچھالنے والے سبھی یا پیشتر کردار بھی اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں عمران خان نوازشریف زرداری اور سرمایہ دار طبقے کے سبھی افراد کیونکہ 400 پاکستانی تاجروں کے نام سامنے آنے کے بعد متوقع طورپر شور مچانے والوں کی توانائی بھی مجروح یا سلب ہوگئی تھی کیونکہ کہانی تو مکمل طورپر نوشتہ دیوار ہے۔