کراچی (جیوڈیسک) سندھ میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا داخلہ، امتحانی اور رجسٹریشن فیس کی مد میں زرعی شعبے سے زیادہ رقم صوبائی خزانے میں شامل کر رہے ہیں۔ سندھ میں زراعت کے شعبے سے آمدن پر پورے سال کے دوران صرف 35 کروڑ روپے کا انکم ٹیکس وصول کیا گیا ہے
زرعی شعبے سے حاصل ہونے والے ٹیکس سے زیادہ اسکول کالجزاوریونیورسٹیز کے طلبا نے رجسٹریشن اور امتحانی فیسوں کی مد میں رقوم جمع کرائی ہیں جن کی مالیت 60کروڑروپے سے زائد ہے، پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے غیرملکی سرمایہ کاروں، تجارتی کمپنیوں اور چیمبر آف کامرس کی جانب سے زراعت کے شعبے سے ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے ہر سال تجاویز وفاق اور صوبوں کو ارسال کی جاتی ہے تاہم سیاسی نظام میں جاگیرداروں اور زمینداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے زراعت سے انکم ٹیکس وصولی انتہائی محدود ہے۔
صوبے میں بھرپور زرعی پیداوار اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر کاشت ہونے کے باوجود سیاسی جماعت میں جاگیرداروں اور زمینداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے زرعی شعبے سے خاطر خواہ ٹیکس وصول نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے دیگر شعبوں کو ٹیکسوں کا بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے، زرعی شعبے کو ٹیکسوں میں تحفظ کی پالیسی کا اندازہ سندھ کے تعلیمی اداروں سے حاصل ہونے والی نان ٹیکس آمدن اور زرعی شعبے سے حاصل ہونے والے انکم ٹیکس کے موازنے سے کیا جاسکتا ہے، سندھ حکومت نے 2016-17 کے بجٹ میں بھی زراعت کے شعبے سے ٹیکس وصولی کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، سندھ میں صوبائی ٹیکسوں سے آئندہ مالی سال کے دوران 154 ارب روپے وصول کیے جائیں گے۔
زراعت کے شعبے سے انکم ٹیکس کی وصولی کا ہدف ایک بار پھر 65 کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے جو مجموعی صوبائی ٹیکس وصولیوں کا محض 0.22 فیصد ہے، رواں مالی سال کے دوران بھی زراعت کے شعبے سے انکم ٹیکس وصولی کا ہدف 65 کروڑ روپے تھا جس کا صرف 53 فیصد ہی وصول کیا گیا
زرعی شعبے سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی سال 2014-15 کے دوران سندھ حکومت کو تعلیمی خدمات کی فراہمی سے 55کروڑ 91 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی، یہ وصولیاں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز، تکنیکی تعلیم کے اداروں کے طلبا کی جانب سے داخلہ فیس، رجسٹریشن اور امتحانی فیس کی مد میں جمع کرائی گئی، سندھ حکومت نے تعلیمی خدمات سے آئندہ مالی سال کے دوران آمدن کا تخمینہ بھی 60 کروڑ روپے لگایا ہے۔