تحریر: نعمان وڈیرہ سندھ حکومت نے نئے مالی سال 17-2016 کے لیے 14 ارب 61 کروڑ روپے کے خسارے کے ساتھ سندھ کا 869 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا ۔ اسپکیر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے بجٹ پیش کیا۔قارئین مختصراً ذرا اعدادو شمار دیکھ لیں، اپنی ذاتی رائے میں بعد میں پیش کروں گا۔ آج کی دنیا میں تعلیم کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اس لئے بجٹ میں تعلیم کے مستقبل کی بات میں سب سے پہلے کرنا چاہوں گا۔ سندھ کے صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لئے سب سے زیادہ رقم 160 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گذشتہ برس بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 144 ارب 67 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے ۔ یعنی تعلیم کے بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
تعلیم کے بجٹ میں اسکولوں کے لیے 4 ارب 68 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جبکہ اسکولوں اور کالجوں کی مرمت کے لیے 5 ارب 4 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ صحت کے شعبے کے لیے 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ گذشتہ برس صحت کا بجٹ 57 ارب 49 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔محکمہ داخلہ اور پولیس کا مجموعی بجٹ 70 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے ، جبکہ گذشتہ برس پولیس کا بجٹ 61 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ پولیس میں 20 ہزار جبکہ دیگر محکموں میں 10 ہزار نئی اسامیاں رکھی گئی ہیں۔ تنخواہوں اور 85 سال سے زائد عمر کے افراد کی پینشن میں بھی 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ پچھلے سال کی نسبت 39 فیصد زیادہ ہے ۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں مجموعی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 225 ارب روپے ، ترقیاتی بجٹ میں اضلاع کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ بلدیات کے لیے نئے بجٹ میں 42 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
Development Costs
گذشتہ برس ترقیاتی اخراجات کے لیے 214 ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 503 ارب روپے مختص کیے گئے تھے ۔ ایک اہم بات یہاں بتاتا چلوں جو کہ محترم وزیر خزانہ صاحب کے اور بجٹ کے اعدادوشمار بتا رہے ہیں، وہ یہ کہ پچھلے سال اسی حکومت نے ترقیاتی بجٹ 162روپے رکھا تھا لیکن صرف چھیاسی ارب روپے استعمال ہو سکے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں کراچی کے لیے 10 ارب روپے کا خصوصی پیکج رکھا گیا ہے ۔ خصوصی کراچی پیکیج میں شاہراہ فیصل کی توسیع، اسٹارگیٹ اور پنجاب چورنگی پر انڈر پاس کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں، جبکہ گذشتہ سال دھابے جی پر نئے پمپ کی اسکیم کو ایک مرتبہ پھر بجٹ میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں ایس 3 اور کے 4 منصوبہ کے لیے بھی بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے ۔بجٹ میں نئے مالی سال کے دوران پچاس ہزار نئی نوکریوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ایک اچھی بات کہ سندھ حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے کم کر کے 13 فی صد کر دی ہے۔ مراد علی شاہ نے بتایا کہ اس سال 124 ارب روپے ٹیکس وصولیاں کی جائیں گی۔
بجٹ میں سندھ ریونیو بورڈ کو 61 ارب روپے کی وصولیوں کا ہدف دیا گیا ہے ، جبکہ گذشتہ سال محصولات کی وصولیوں کا ہدف 154 بلین تھا جو اس سال 24 فیصد زیادہ ہے ۔ دستیاب بجٹ ڈاکومنٹس کے مطابق بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے ، جو عام آدمی پر اثرانداز ہو۔ بجٹ میں سماجی بہبود، خصوصی تعلیم، اسپورٹس، اقلیتی امور کے بجٹ میں ساڑھے 65 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں کی امداد کے لیے بجٹ میں 200 فیصد اضافہ کرکے 3 کروڑ کردیا گیا ہے ۔
تفصیل میں جائے بغیر یقینا ان مختصر اعدادو شمار سے سندھ حکومت کے اس بجٹ کے مجموعی اثرات اور عوامی تاثرات کو احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں بجٹ سپیچ کے دوران اپوزیشن کی طرف سے جو شورشرابا کیا گیا وہ قابلِ مذمت ہے اور مہذب معاشروں کے قانون ساز اداروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ قارئین ایک بات کو غور سے سوچیں کہ جب سے آپ نے ہوش سنبھالا ہے اور جتنے بجٹ آپ نے دیکھے ہیں کسی بجٹ پر آپ نے اپوزیشن کو تعریف کرتے ہوئے سنا ہے؟ یقیناایسا نہیں ہوتا؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ مخالفین کی بھی ہر اچھے اقدام اور عمل پر حوصلہ افزائی کی جائے اور غلط پر تنقید۔
Politics
پاکستان کی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا اور مخالفت برائے مخالفت کا رواج ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے آنگن میں منطق کی بیل نہیں اگتی۔ میڈیا پر اکثر غیر پیشہ ورانہ افراد بھی بجٹ میں کیڑے نکال رہے ہوتے ہیںجو ایک سال کے لئے اپنے گھر کی مالی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے اور قومی بجٹ پر بحث کرنے آ جاتے ہیں۔ بجٹ آخر ہے کیا؟ کسی بھی حکومت کی وزارتِ خزانہ دستیاب وسائل اور اعدادو شمار کے مطابق آئندہ سال کی مالی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ حکومت کے پاس اس بات کی کوئی یقین دہانی نہیں ہوتی کہ اس نے جو اندازے لگائے ہیں اتنے محصولات یا ریونیو اکٹھا ہوگا بھی کہ نہیں۔ یہ اندازوں پر مبنی ایک منصوبہ بندی ہوتی ہے جس کے مطابق سال بھر حکومت نے چلنا ہوتا ہے۔ کوئی حکومت جتنی بھی اچھی منصوبہ بندی کر لے اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا ہمیشہ اسے تنقید کا نشانہ ہی بناتے ہیں۔ اب ذرا اس بجٹ کی طرف آئیں، جی ایس ٹی کی شرح کم کرنا واقعی لائقِ تحسین ہے اور اس سے تاجر برادری کو فائدہ ہوگا۔ تعلیم کے بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اگرچہ یہ اضافہ پاکستان میں تعلیم کی شرح اور معیار بڑھانے کے لئے ناکافی ہے لیکن دستیاب وسائل کے ساتھ اتنا اضافہ بھی مناسب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سندھ حکومت کو اسے 15فیصد تک لے کر جانا چاہیے تھا۔
موجودہ حکومت نے بجٹ میں صحت کے شعبہ کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں اڑھائی ارب روپے کم رکھے ہیں جبکہ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں سندھ میں صحت کی صورتِ حال انتہائی ناقص ہے۔مزید ہسپتال اور عملہ کی ضرورت ہے لیکن سندھ حکومت نے صحت کے بجٹ میں کٹوتی کر کے برعکس عمل کیا۔ دوسرا انتہائی ناپسندیدہ فیصلہ جو بجٹ میں دیکھنے میں آرہا ہے وہ ترقیاتی بجٹ میں 39فیصد اضافہ کا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سندھ حکومت گزشتہ برس ترقیات بجٹ کے 162 ارب روپوں میں سے صرف 86 ارب روپے استعمال کر سکتی۔ کیا سندھ میں ترقی مکمل ہو چکی ہے؟ یا لوگوں نے ترقیاتی انفراسٹرکچر لینے سے انکار کر دیا ہے؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب حکومت میں ترقیاتی بجٹ استعمال کرنے کی اہلیت ہی نہیں تو پھر ترقیاتی بجٹ میں ہوشربا اضافہ کیوں کیا گیا؟ اور حکومت یہ بھی بتائے کہ گزشتہ برس بچنے والے 76 ارب روپے کہاں ہیں۔
جبکہ بجٹ دستاویزات میں ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں؟ اصل میں ترقیاتی بجٹ ہی بجٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں کرپشن کے وسیع امکانات و مواقع ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کرپشن کی کوئی نئی کہانی لکھنے کے لئے ترقیاتی بجٹ میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے؟ آپ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ہزاروں نئی نوکریوں کا اعلان تو کر رہے ہیں لیکن صحت کا بجٹ آپ نے پہلے سے کم کر دیا؟ نئی ملازمتیں آپ کہاں سے پیدا کریں گے؟ اس بجٹ کے حوالے سے بہت سی اچھی اور بری باتیں اور بھی کہنا چاہتا ہوں لیکن پھر کالم بہت لمبا ہو جائے گا۔ اس لئے ایک ہی بات اور ایک ہی جملہ کہنا چاہوں گا کہ ترقیاتی اور صحت کے بجٹ کو نکال کر سندھ کا مجموعی بجٹ متوازن ہے۔ ووزیرخزانہ اور قائم علی شاہ سے درخواست ہے کہ وہ بجٹ کے ان حصوں پر ضرور نظرِثانی کریں۔