تحریر: ایم ایم علی رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا عشرہ مکمل ہونے کو ہے ،ہر طرف ایک پر نور کیفیت کا سا عالم ہے ۔ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کے نور نے ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو ۔بازاروں میں رونقیں لگ جا تی ہیں اور مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں ایک طرف مسلمان اس ماہ مبارک میں فیوض و برکات سمیٹنے میں لگے ہوتے ہیں وہیں نا جائز منافع خور اور گراں فروش روزہ داروں کو لوٹنے میں مگن دکھائی دیتے ہیں ،جیسے ہی رمضان المبارک شروع ہو تا ہے یہ لوگ عوام کو لوٹنے کیلئے سر گرم ہو جاتے ہیں اور عوام کی جیبیں کا ٹنے کیلئے اپنی چھریاں تیز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
بعض دوکاندار حضرات ماہ صیام شروع ہوتے ہی 10روپے کی چیز 20روپے میں اور 50روپے کی چیز100روپے میں فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔دوسرے ممالک میں جب کوئی مذہبی تہوار آتا ہے تو اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں کمی کر دی جاتی ہے تاکہ عام آدمی بھی آسانی کے ساتھ اپنا مذہبی فریضہ سر انجام دے سکے اور تو اور غیر مسلم ممالک میں بھی رمضان المبارک کے احترام میں اشیائے خوردو نوش سستی کر دی جاتی ہیں تاکہ مسلمان اپنا مذہبی فریضہ احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں ،لیکن ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں جب بھی کوئی مذہبی تہوار آتا ہے مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہو جاتا ہے۔
Bazar
دوکاندار ،پھل فروش ،خوانچہ فروش،ہر کوئی منہ مانگے دام وصول کرنا شروع کر دیتا ہے بحیثت مسلمان ہمارا مذہبی اور اخلاقی حق تو یہ بنتا ہے کہ ہم اس ماہ مبارک میں اشیاء خوردونوش کے نرخ کم کر دیں تاکہ روزہ دار آسانی کے ساتھ اپنی ضروریات زندگی کی اشیا ء خرید سکیں اور اپنا مذہبی فریضہ با آسانی سر انجام دے سکیں ،لیکن ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے ۔یوں تو منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی عمل میں لانے کے حکومت بھی اعلانات کرتی رہتی ہے مگرمنافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سخت اقدامات کرنے کے حکومتی اعلانات اور دعوے بس اعلانوں اور دعووں تک ہی محدود رہتے ہیں عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آتا اور منافع خور اپنی من مانیاں جاری رکھتے ہیںشاید یہ لوگ اس قدر با اثر ہوتے ہیں کہ قانون بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتا ہے۔
رمضان المبارک میں عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے حکومتوں کی جانب سے رمضان پیکج بھی دیے جاتے ہیں اور رمضان بازار بھی لگائے جاتے ہیں ان بازاروں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں عام بازاروں کی نسبت کم ہوتی ہیں لیکن یہ اشیا ئے خوردونوش غیر معیاری ہوتی ہیں ،حالانکہ اشیاء کے نرخ اور اشیاء کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے مختلف ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں جو بازاروں میں دورے کر کے اشیاء کے نرخ اور معیار چیک کرتی رہتی ہیں پنجاب کے مختلف شہروں میں تو خادم اعلی پنجاب خود آئے روز رمضان بازاروں کے غیر اعلانیہ دورے کرتے رہتے ہیں اور موقع پر سخت احکامات بھی جاری کرتے رہتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان بازاروں میں اشیائے خوردونوش کے معیار کو بہتر نہیں بنایا جاسکا،اس کی ایک اہم وجہ مجسٹریسی نظام کا نہ ہونا بھی ہے جس کے پاس موقع پر جزا و سزا کا اختیار ہوتا تھا۔
قارئین کرام! گذشتہ روز راقم کو لاہور کے ایک رمضان بازار میں جانے کا اتفاق ہوا راقم پھلوں کے ایک سٹال سے پھل خرید رہا تھا کہ اسی دوران اس سٹال پر دو پولیس والے آتے ہیں اور پھلوں کے اس سٹال سے تین ،چار کلو خربوزے اور چار پانچ کلو کا ایک تربوز لیتے ہیں اور سٹال والے چچاسے کہتے ہیں کہ کسی لڑکے کو بھیج کر یہ سامان گاڑی میں رکھوا دو ، جس پر چاچا نے کہا کہ اس وقت تو کوئی لڑکا نہیں ہے میں سوچ رہا تھا کہ شاید یہ ابھی فروٹ کے پیسے ادا کریں گے مگر میری سوچ کے برعکس وہ بغیر پیسے ادا کئے فروٹ اٹھا کر چلتے بنے ان کے جانے کے بعد جب میں نے سٹال والے سے پوچھا کہ چاچا آپ نے ان لوگوں کو بغیر پیسے لئے ہوئے کیوں جانے دیا کہیں آپ ان سے پیسے لینا بھول تو نہیں گئے؟ تو اس پر چاچا نے آہ بھری اور افسردہ لہبحے میں کہا ،کہ کیا کریں بیٹا اگر ان سے پیسے لیتا تو کل سٹال کہاں لگاتا ۔جب لوٹ مار کو روکنے والے خود ہی لوٹ مار شروع کردیں تو ایسے میں کسی اور سے اچھائی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟۔۔
Ramzan
قارئین! حکومتی اقدامات اپنی جگہ لیکن بحیثت مسلمان قوم ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اس ماہ مقدس کا احترام کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تاجر بردری بھی اپنا منافع انتہائی کم کر کے سخی ہونے کا ثبوت دے رمضان المبارک ہمیں ایثار وقربانی کا درس دیتا ہے ،صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نا م روزہ نہیں ہے ،ماہ صیام میں شیطان کو تو قید کر لیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے پیچھے اپنے چیلوں کو چھوڑ جاتاہے ،جو ماہ صیام شروع ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتے ہیں ،یہ لوگ ماہ صیام کو حرص دولت کی تکمیل کیلئے ایک مناسب موقع تصور کرتے ہیں ، قارئین! امسال کی طرح اس بار بھی ماہ صیام سخت گرمی میں شروع ہوا ہے۔
یہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کا امتحان ہے اور ہمارے پاس یہ ایک نادر موقع ہے کہ ہم نہ صرف اس گرم ترین موسم میں روزے رکھ کر زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹیں بلکہ اپنے ارد گرد موجود ضرورت مندو ں کی ضروریات کو بھی جہاں تک ممکن ہو سکے پوری کرنے کی کوشش کریں اس ماہ مبارک میں ہمیں اپنے اردگرد بسنے والے ان لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو اپنی غربت کی وجہ سے اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کر پاتے ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتے ،کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو سحری کے وقت روزہ تو کسی طرح رکھ لیتے ہیں لیکن ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کے افطاری کے وقت کچھ کھانے کو بھی ملے گا یا نہیں ،گھر میں دسترخوان سجاتے وقت ان جیسے مفلس و مجبور لوگوں کا خیال بھی رکھیں۔
اپنے بچوں کو اچھے کپڑے دلاتے وقت ان لوگوں کے بچوں کا بھی خیال رکھیں جو اپنے بچوں کو کپڑے لے کر دینا تو درکنار اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ان کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتے ۔ اپنے ارد گرد غربا اور مساکین کا خیال رکھنا صرف ہماری مذہبی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ قومی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے، یہ ہمارے پاس خدا کی طرف سے عنایت کیا گیا ایک سنہری موقع ہے کہ ہم ایک طرف تو اس ماہ مبارک کے فیوض و بر کات سے لطف اندوز ہوں تو دوسری طرف غریب لوگوں کا آسرا بن کر دنیا و آخرت میں خدا کے حضور سر خرو ہو سکیں۔