تحریر : عماد ظفر رمضان المبارک کے مقدس میہنہ رحمتوں اور کرم کا مہینہ کہلاتا ہے. البتہ ہمارے ہاں یہ مہینہ منافع خوری ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کیلیے موزوں ترین ہوتا ہے. اس مقدس ماہ کا نام لے کر سب سے پہلے ٹیلی ویژن چینلوں پر اسلامی ٹرانسمیشن یا افطار و رمضان کی ٹرانسمیشن کے بہانے خوب ٹی آر پی بڑھا کر اشتہارات کے زریعے اربوں روپے کا منافع کمایا جاتا ہے ان پروگراموں کا معیار اور ان کے میزبانوں کی باتیں اس قدر مصنوعی اور گھٹیا ہوتی ہیں جن کا کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا. اشتہارات کی بھرمار اور بھونڈے قسم کے غیرمعیاری پروگرام کے مواد پیش کر کے رمضان کے مہینے کی سادگی کے درس کا کھلے عام مذاق اڑایا جاتا ہے اشیائے خوردونوش اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں رمضان کے آتے ہی دوگنا اضافہ کر دیا جاتا ہے پرچون فروش سے لیکر ہول سیل ڈیلر تمام افراد اس کام میں آگے آگے ہوتے ہیں۔
یوں مہنگائی کا ایک طوفان ہے جسے کہ جان بوجھ کر اس مہینے میں پیدا کیا جاتا ہے اور عام آدمی کی زندگی کو ماہ رمضان میں بھی تکلیف دہ بنا دیا جاتا ہے.غیر معیاری اور دو نمبر مشروبات کی بھرمار کر کے روزے داروں کی صحت سےکھیلنے کے بعد تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر ڈالی جاتی ہے کہ جن کے دور میں مہنگی یا جعلی اشیا بکتی ہیںیہی نہیں کپڑے سینے والا درزی ہو یا سب اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کام کے دام بڑھا دیتے ہیں اور یوں اس مقدس ماہ کو بھی ایک ایک نفع خوری کا مہینہ بنا لیا جاتا ہے. پوری دنیا میں ایک اصول ہے کہ جب جب مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیا سستی کر دی جاتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ تہوار یا اس مقدس مہینے کو اور زیادہ منافع خوری کیلیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مہینے میں ہماری پھرتیاں بھی بڑھ جاتی ہیں پورا سال جھوٹ دروغ گوئی ایہ دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے رشوت اور بدعنوانی کرنے کے بعد اس مہینے ہم سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھ کر یوں مومن بنے پھرتے ہیں گویا یم سے پارسا کوئی اور ہے نہیں یا گویا کہ رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں میں جھوٹ منافقت بدعنوانی رشوت خوری کی کھلی چھوٹ ہے ایک اور دلچسپ رویہ جو اس ماہ میں دیکھنے میں آتا ہے وہ آپ سے دوسرے لوگوں کا استفسار ہوتا ہے کہ روزہ رکھا کیا؟ اگر آپ نے غلطی سے کسی بھی بیماری یا حالات کی بنا پر روزہ نہیں رکھا تو آپ کو ایسی عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے بس ابھی آپ کو کچا چبا لیا جائے گا. حالانکہ دیگر عبادات کی طرح یہ بھی خدا اور بندے کا زاتی اور نجی معاملہ پے . ایک اورطبقہ ہمارے ہاں ماہ رمضان کو نمود و نمائش کیلئے بھی خوب پیش کرتا ہے۔
Iftar
افطار اور سحر پر دعوتوں کے نام پر یوں کھانے اور روپوں کا ضیاع کیا جاتا ہے کہ اس مقدصد کی اصل روح جو کہ قربانی اور اپنی خواہشات کو مارنے سے متعلق ہے ختم ہو کر رہ جاتی ہے. یوں ایک غریب یا سفید پوش آنسان کیلئے یہ ماہ رمضان بھی اپنی سفید پوشی کا بھرم بچانے کی تگ و دو میں گزر جاتا ہے.خیر ہمیں اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے ہمیں تو دکھاوا اور لوٹ مچانے سے فرصت ملے تو کچھ اخرت کی فکر کریں۔ویسے بھی ہماری ساری توانائی محض اس بات پر خرچ ہوتی ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی.کس نے روزہ رکھا ہے اور کس نے نہیں. چند روز قبل ہی ایک ہندو بزرگ کو اس بات پر مارنے کا واقع کے وہ دوران روزہ کھا پی رہا تھا اس امر کی نجوبی نشاندہی ہے کہ ہم اپنی اپنی محرومیاں مذہب کے نام پر نکالنے کے کس قدر عادی ہو چکے ہیں۔
دوران روزہ گلے سڑے پھل بیچنے سے لیکر مہنگی اور جعلی اشیائے خوردووش سے اس ماہ کی بے حرمتی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اس ماہ کی بےحرمتی ہو جاتی ہے اور ہماری جعلی غیرت فورا جوش مارنے لگتی ہے رمضان کا مہینہ ایک ایسا ایونٹ بنا دیا جاتا ہے جس یں ہم سب بقدر استطاعت اور حسب ظرف جی بھر لے لٹ مچانے کے بعد توبہ توبہ کی گرداب کرتے نظر آتے ہیں. آئیے مل کر خوب لٹ مچائیں اور پھر معاشرے پر لعن طعن کریں کہ یہ معاشرہ ہے ہی کھوکھلا اور منافق. اور مہنگائی کی زمہ دار حکومت ہے کیونکہ اسحق ڈار کو ایک ایک ریڑی بان ایک ایک پرچون فروش کے پاس جا کر قیمتوں اور اشیا کی کوالٹی پر نظر رکھنی چائیے۔
بھلا ہمارا کیا قصور اگر ہم ماہ رمضان میں اشیا کی یا اپنے اہنے کام کے دام بڑھا لیتے ہیں آخر کو سال میں تمام مہینے یہ سب کرنے کے بعد اتنی چھوٹی سی عادت تو ویسے ہی پکی ہو جاتی ہے. چھوڑیے کرپٹ حکومت کو اور اپنے اپنے بس اور طاقت کے مطابق اس مقدس ماہ میں بھی ایک دوسرے کا خون نچوڑیں اور مہنگائی اور نانصافی کو بھی کسی اور کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو دھوکہ دینے میں مشغول رہیں۔