تحریر : شیخ توصیف حسین ایک بادشاہ جس کی رعایا اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خا طر حرام و حلال کی تمیز کھو کر بے حسی کی زندگی گزار رہی تھی کہ ایک دن بادشاہ اپنی رعایا کے احوال جا ننے کیلئے ان میں جلوہ افروز ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ ہر شخص اپنے حال میں مگن اور مست اپنے اپنے کا موں میں مصروف ہے یہاں تک کہ مابدولت کی آمد کا بھی کسی نے نوٹس نہ لیا جس پر اُس کے ایک مشیر نے بادشاہ کو احساس دلا یا کہ دیکھا حضور آپ کی رعایا ضرورت سے زیادہ ہی حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر بے حسی کا شکار ہو کر آپ کی تعظیم اور اہمیت کو بھی بھول گئی ہے لہذا ان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کیا جائے کہ ان کو آپ کی ضرورت ہر دم محسوس ہو یہ سننے کے بعد بادشاہ نے ایک جگہ بہت سے رعایا کے لو گوں کو دریا عبور کرتے دیکھا تو اس نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا کہ اس دریا کی کشتیوں کی تعداد کو کم کر دیا جائے تاکہ رعایا کے لو گوں کو آنے جانے میں دقت محسوس ہو اور وہ پریشان ہو کر میرے دربار میں حا ضر ہو کر اس مسئلے کے حل کی درخواست کریں۔
کچھ عرصہ انتظار کے باوجود بھی رعایا کا کوئی فرد بادشاہ کے حضور یہ التجا لیکر نہ پہنچا تو بادشاہ نے اگلا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رعایا کے لو گوں پر ان کشتیوں پر سفر کرنے کے پاداش میں ٹیکس لگایا جائے اس حکم نامہ کے باوجود بھی رعایا کا کوئی فرد بادشاہ کی خدمت اقدس میں پیش نہ ہوا تو بادشاہ نے آگ بگو لا ہوتے ہوئے ایک اور حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دریا کے دو نوں کناروں پر ایک ایک اہلکار تعنیات کر دیا جائے جو رعایا کے آنے جانے والے لوگوں کی چھترول کرتے رہے اس حکم نامے کے کچھ عرصہ بعد رعایا کا ایک فرد بادشاہ سلا مت کے رو برو پیش ہو کر عرض کی کہ بادشاہ سلا مت آپ نے دریا کے دو نوں کناروں پر ایک ایک اہلکار ہمیں چھترول مارنے کیلئے تعنیات کیا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں چھترول کھانے والوں کا بہت زیادہ رش ہو جاتا ہے۔
لہذا آپ سے استدعا کی جاتی ہے کہ وہاں پر اہلکاروں کی تعداد کو اس قدر بڑ ھا دیا جائے کہ وہ ہمیں جلدی جلدی چھترول مار کر فارغ کر دیں بالکل یہی حا لت زار ہمارے ملک کی عوام کی ہے جس کے نتیجہ میں اس ملک کے حا کمین سیاست دان اور بڑے بڑے بیوروکریٹس اگر انھیں سر درد نزلہ بخار پٹھوں کا درد پیٹ کا درد دانتوں میں درد معدے کا درد یا پھر آ نکھوں کی تکلیف ہو تو یہ پا کستانی ڈاکٹروں کی فوج کے ہمراہ بیرون ملک اپنا علاج معا لجہ کروانے کیلئے چلے جاتے ہیں جبکہ دوسری جا نب ہم جیسے لا تعداد غریب افراد سر کاری ہسپتا لوں میں بر وقت ادویات کے نہ ملنے کے سبب اور بالخصوص ڈاکٹروں کی عدم توجہ کا شکار ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی موت آئے روز مر رہے ہیں۔
Hospital
یہاں میں ایک چھوٹی سی مثال ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ کی دے رہا ہوں جس کے ایمر جنسی اور ٹراما جیسے اہم وارڈز میں ینگ ڈاکٹرز کو تعنیات کر دیا گیا ہے جن کی نا تجربہ کاری کے نتیجہ میں ہر ماہ سینکڑوں مریض موت کی آ غوش میں پہنچ رہے ہیں جبکہ یہاں کے سیاست دان اور اعلی عہدوں پر فائز بیورو کریٹس آپس میں ملکر اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگائو اور مال کمائو کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان مفاد پرست سیاست دانوں کے خوشامدی کا رندے جو کبھی دو وقت کی روٹی کے حصول کی خا طر در بدر کی ٹھوکریں کھاتے تھے آج کروڑوں اور اربوں روپوں کے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکیدار بن کر ملکی دو لت کو دونوں ہا تھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں اگران کی حالت یہ ہے تو ان کے سیاسی آ قائوں کی حالت کیا ہو گی۔
حکومت پنجاب بس انہیں سیاسی کا رندوں کا آ ڈٹ کر لیں تو انشا ء اللہ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہو جائے گا لیکن ایسا ہو گا نہیں چونکہ یہاں تو ہر شخص خواہ وہ بڑا ہے یا پھر چھوٹا اپنی اپنی کر سی بچا نے کے چکر میں ہے انھیں ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں بس یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صوبائی ہے یا پھر وفاقی لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہے تاریخ گواہ ہے کہ آج تک اس ملک میں کسی مفاد پر ست سیاست دان حاکم یا پھر اعلی عہدوں پر فائز بیوروکریٹس کو سزا نہیں ملی۔
ہاں البتہ اگر کسی بیوروکریٹس کی لوٹ مار کی اطلاع اوپر والوں کو ملی ہے تو انہوں نے بس یہی سزا اُس بیوروکریٹس کو دی ہے کہ اس ضلع سے تبدیل کر کے کسی بڑے ضلع میں تعنیات کر دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ راشی بیوروکریٹس پہلے سے بھی زیادہ لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتا ہے۔
Corruption
یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں مجھے اطلاع ملی کہ ای ڈی او ہیلتھ جھنگ آ فس کے پا نچ اہلکار جو کہ ہارڈ ورکر سمجھے جاتے تھے کو کر پشن کے الزام میں معطل کر کے ار با ب و بااختیار لا ہور کو فوری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یہ سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ان پانچ اہلکاروں کو کیوں ان کے سینئر آ فیسرز کو یہ سزا کیوں نہیں ملی جہاں تک میری سو چ کا تعلق ہے کہ کوئی کر پشن سینئر آ فیسرز کی سر پر ستی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی قصہ مختصر ان معطل کیئے گئے اہلکاروں میں سے تین اہلکار ارباب و بااختیار لا ہور کی خو شنودگی حاصل کر نے کے بعد آب زم زم سے نہا کر واپس اپنی ڈیوٹی پر آ گئے۔
جبکہ دو اہلکار غالبا بہت زیادہ غریب تھے ارباب و بااختیار لا ہور کی خو شنو دگی سے محروم ہو کر تاحال در بدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس طرح یہ تین اہلکار بحال ہوئے ہیں باقی دو اہلکار بھی بحال ہو جاتے لیکن افسوس کہ اس پر آ شوب معاشرے میں ارباب و بااختیار لا ہور کی خوشنودگی کے بغیر کو ئی کچھ نہیں کر سکتا اس لیئے تو میں کہتا ہوں کہ اس ملک کے ارباب و بااختیار راضی تے سارا جگ راضی آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے مٹھی بھر خاندانوں کے افراد نے ملک و قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر لا قا نو نیت کا ننگا رقص کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک غلام ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے۔
جبکہ اس ملک کا بچہ بچہ غیر مسلم ملکوں کا مقروض بن کر رہ گیا ہے یہاں افسوس ناک تو پہلو یہ ہے کہ مٹھی بھر خا ندان کے افراد جو ملکی دو لت لو ٹ کر غیر مسلم ملکوں میں رکھتے ہیں وہی دو لت ہم قرض لیکر سود سمیت واپس کرتے ہیں اس افسوس ناک پہلو کے باوجود اس ملک کی عوام بے حسی کا مظا ہرہ کرنے میں مصروف عمل ہے آ خر میں بس یہی کہوں گا۔ کہ سپیروں نے یہ کہہ کر سانپوں کو بند کر دیا ٹوکریوں میں کہ اب انسان ہی کافی ہیں انسانوں کو ڈسنے کیلئے