تحریر : محمد اشفاق راجا جنوبی ایشیا پر جوہری تصادم کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم کے سائے منڈلا رہے ہیں تاہم پاکستان’ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری سے خطے میں دیر پا امن، استحکام اور خوشحالی کے امکانات بہت حد تک بڑھ سکتے ہیں، ایک سینئر امریکی عہدیدار نے اس امکان کو مسترد کردیا کہ بھارت کی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت سے جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک استحکام پر فرق پڑے گا۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ خطے میں جوہری تنازعات پیدا ہونے کا خطرہ ضرور ہے۔ ہمیں بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات پر تشویش ہے، اس کے علاوہ ایٹمی ذخائر میں اضافے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ کے بڑھتے خطرات کے پیش نظر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
واضح رہے چین نے 48 رکنی این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کی شدید مخالفت کی ہے۔ جو ممالک ہندوستان کی شمولیت کی مخالفت کررہے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ نئی دہلی پہلے جوہری عدم پھیلاوکے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرے۔ لیکن امریکہ اس حوالے سے بھارت کے لیے استثنیٰ کا خواہاں ہے، تاہم چین کا موقف ہے کہ اگر ایک ملک کو چھوٹ دی گئی تو دوسروں کو بھی استثنیٰ دینا ہوگا۔ سینئر امریکی عہدیدار نے امریکہ کا موقف واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اندر کی بات یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات چاہتا ہے۔
امریکہ کی یہ خواہش گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران حقیقت میں بدل گئی، اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کئی بڑے معاہدے طے پائے۔ امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ بھارت کو این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر این ایس جی کی رکنیت دینے سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ ہم نہیں سمجھتے اس سے خطے کے سٹریٹجک استحکام میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔
Nuclear Weapons
کشیدگی روکنے کے لیے امریکی اقدامات کے حوالے سے سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ ہم جوہری ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک پر مسلسل زور دیتے آئے ہیں کہ وہ ایٹمی میزائلوں کے حوالے سے تحمل کی پالیسی اپنائیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری انتہائی اہم ہے، یہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ عہدیدار نے یاد دلایا کہ امریکہ نے نیپال میں سارک ممالک کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے درمیان ملاقات کا خیر مقدم کیا تھا۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کو عملی اشتراک سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہم چاہتے ہیں دونوں ممالک براہ راست مذاکرات اور تعاون شروع کریں۔
ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاہم خطے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر امریکہ کو تشویش ہے۔ ہمیں ان دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے مستقل تشویش ہے جو پاکستان بھارت مذاکراتی عمل سبوتاڑ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاکستان، بھارت اور افغانستان کے ساتھ سکیورٹی تعلقات مختلف ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت پر کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان، بھارت پر حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روک کر تعلقات میں بہتری کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی اس شکایت کا براہ راست تذکرہ کرنے سے گریز کیا جس میں پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ افغانستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اپنی سرزمین پر خفیہ ٹھکانے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جہاں سے وہ پاکستان پر حملے کررہے ہیں۔