تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری صبح سے دوپہر تک مشقت کرکے تھکے ماندے اور موسم کے ستائے ہوئے درختوں کی گھنی چھائوں تلے صرف تاش ،لڈو وغیرہ کھیلتے اور وقت کاٹتے مزدور پیشہ افراد کو خانہ پری کرنے کے لیے گرفتار کرکے سزائیں دے ڈالی جاتی ہیں۔کہ آپ تو جوا کھیل رہے ہیںوہ ہفتوں جیلوں میںقیدبا مشقت کاٹتے ہیں۔کسی نے مکان کی تعمیر کے لیے چند ہزار روپے قرضہ لیاعدم ادائیگی کی صور ت میں اس کی بقیہ جائداد بھی قرق کرنے میں بنکرز کو” بڑا مزہ”آتا ہے مگر جو بنکوں کے اربوں ہڑپ کر جائیں یا معافیاں کروالیں انکے خلاف ایکشن لیتے ہوئے حکومتی کرپٹ مشینری کے پائوں جلتے ہیں۔ملک کے چار سو سے زائد کاروباری حضرات بشمول شریفوں اور گجراتی چوہدریوں کے بچے ،مرحوم محترمہ،عمران اور اس کے اے ٹی ایم کارڈز وغیرہ پانامہ لیکس و دیگر کمپنیوں میں اربوں جمع کرواکر بیرونی ممالک کا ٹیکس ہڑپ کر جائیں۔
کالا دھن جعلی طریقوں سے ملک سے بھیج ڈالیں اور ان سرمایوں سے نام نہاد کاروبار وں کے ذریعے کمائیںحتیٰ کہ پاکستان میں صرف اپنی اسمبلی کی ممبر شپ یعنی نام نہاد کمائو سیٹ انھی فراڈی طریقوں سے بنائی رقوم سے برقرار رکھیں” تو کوئی حرج نہیں! کوئی مضائقہ نہیں”لیکس والے”اعلیٰ ملزموں” سے تین ماہ میں پوچھ گچھ تک بھی نہیں شروع کی جاسکی۔ٹی اور آرز” ڈرامہ ” کے بارے میں پہلے ہی کالموں میں بتایا تھا کہ صرف عام لو گوں کوان لیکس کے بھول جانے کے لیے یہ وقت کٹی کا ذریعہ ہیں “رات گئی بات گئی”کی طرح جو مجرم واردات کرتے ہوئے موقع پر یا بعد ازاں فوری طور پر نہ پکڑے جائیں تو پھر ان کا بعد میں کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
ویسے یہاں تو چور اور کتی ملے ہوئے ہیںوہی چور وہی تفتیشی اور وہی پکڑ دھکڑ کرنے والے تو مسئلہ یو نہی چلتا رہے گا۔تین ماہ کے عرصہ میں تو ان سرمایہ پرستوں نے سارا مال اِدھر اُدھر کردیا ہوگا اب ہاتھ کچھ بھی نہیں آنے والا! سب رٹے رٹائے جملے اور وضاحتیں وزیروں مشیروں نے میڈیا پر سنا سنا کرلوگوں کو حفظ کرواڈالی ہیں۔ویسے بھی میڈیا کنٹرول کرنا حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔یہ لیکس تماشہ یونہی ٹاک شوز اور اخبارات میں خوب چلتا گھومتا پھرتا رہے گاجیسے پہلے ہوتا رہا ہے آخر حسین حقانی کے پاکستان دشمن خطوط اور ملکی سا لمیت کے خلاف” کارہائے نمایاں ” کا کیا بنا۔
Asif Zardari
وہ زرداری کے صدارتی محل کا مہمان بن کر آیا ور مکھن سے بال کی طرح نکلتابیرونی دنیا کواڑھنچوہو گیا۔زرداری کی وکی لیکس ،سر ے محل کا کیا بنا ،مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل کر ہندو بنیوں کے کنٹرول میں چلا گیا۔کمیشن نے تحقیقات کیں کیا کوئی کاروائی ہوسکی؟گیلانی وزیر اعظم کی”کرامات “،راجہ رینٹل کے اربوں کے کک بیکس،سپریم کورٹ میں اصغر خاں کیس میںکئی درجن سیاستدانوں حتیٰ کہ حکمرانوں تک کی پیٹھ مکمل ننگی ہو گئی۔مگر سوال وہی ہے کہ کیا کوئی فراڈیابنک ڈکیت ،ملک دشمن ،خزانے لوٹنے والا پکڑ ا گیا؟ جواب نفی میں ہے تو پانامہ لیکس والے کیسے پکڑے جائیں گےجو اربوں کما سکتے ہیں وہ کروڑوں خرچ کرکے چھوٹ سکتے ہیں یہی روایت دنیا ہے اور پاکستان میں تو”جیدھے گھر دانے اودھے کملے وی سیانے” کا فارمولہ ہمہ وقت کار آمد رہتا ہے۔مال لگائو۔بری ہو جائومجرم کبھی جرم کر ہی نہیں سکتا اگر اسے یہ تسلی نہ ہو کہ مجھے بچانے اور ایجنسیوں تک کو الجھانے والے اس کے دوست یار ہمجولی زیادہ بااثر اور طاقتور ہیں۔میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
پھر جو جاگیرداروں ،وڈیروںٹھگوں ،بد معاشوں لٹیروںکے جتھے بنے ہوئے ہیں جن کی پشت پناہی کے لیے منتخب ممبران اسمبلی اور بااثر افراد ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔کہ وہ بھی زیادہ تر انھی غنڈہ صفت افرادکی ہی بدولت کامیاب ہوتے ہیں۔یہی انتخابات میں ان کی جیت کے لیے انویسٹ کرتے ہیںتاکہ ممبر منتخب ہو کران کی کی ہوئی ہر واردات پر ان کی امداد کریں جو منتخب ہونے کے بعد ایسا کرنے سے انکاری ہوا تو اگلی انتخابی ٹرم میں وہ اوندھے منہ گرا پڑا ہوتا ہے ویسے بھی عقل تسلیم کرتی ہے کہ برائی کرنے والوں کی تعداد آج کے دور میں نیکو کاروں کی نسبت سینکڑوں گنا زیادہ ہے اور مغربی لادینی جمہوری نظام میں ون مین ون ووٹ کا اصول رائج ہے تو بروں کے ووٹ بھی زیادہ اور ان کے پاس حرام کی کمائیوں کی وجہ سے مال بھی زیادہ۔ اس لیے جیتنے والا امیدوار خوا ہ اپنے آپ کو”پاک باز”کہتا اور سمجھتا رہے۔وہ ان غنڈوں ،چوروں ڈکیتوں ،قاتلوں رسہ گیروں کی امداد کے بغیر انتخابی مہم تک بھی نہیں چلا سکتا۔
جاگیردار وڈیرے امیدوار انھی جتھوں کو پالتے پوستے رہتے ہیںاور انھی کے ذریعے پولنگ والے دن غنڈہ گردی کرنے ،پولنگ سٹاف کو ہمہ قسم اعلیٰ کھانے پہنچانے کوئی نقد لین دین کرنے کا “اصل کام” لیتے ہیںپھر اپنی مرضی کے امیدوار کے نشان پر ٹھپے لگتے ہیں شام کو جیت پر کلاشنکوفوں کی فائرنگ بھی یہی ٹولے کرتے ہیں بھلا اب جیتنے والا امیدوار ان کی نہ سنے تو پھر کیا کسی متولی یا مجاور کی سنے جواسے شاید اپنا ووٹ بھی دے سکا ہو گا کہ نہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ الیکشن نظام کی مکمل اصلاح ہو تمام انتخابی امیدواروں کی ہمہ قسم انتخابی مہم پمفلٹ پوسٹر سٹیکرپراپیگنڈہ جلوس جلسہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے جیسے تمام مراحل کی تکمیل کے اخراجات حکومت اپنے ذمہ لے۔ ایک حلقہ کے سبھی امیدواروں کے جلسے حکومتی نگرانی میں مشترکہ ہوں کوئی امیدوار اپنے پروگرام کے علاوہ کوئی تنقیدی یا اخلاق سے گرا کلمہ ادا نہ کرے کسی امیدوارکو رقم خرچ کرنے کی بالکل اجازت نہ ہو ۔وہ مہم کے دوران نہ کسی کو کچھ کھلائے اور نہ ہی خود کسی سے کھائے۔کوئی انتخابی امیدوار پانچ ایکڑ یا بنک میں دس لاکھ روپے سے زائد رکھنے والا نا اہل ہو گا۔
Political Parties
موجودہ نظام میں تو پندرہ کروڑ خرچ کرکے پندرہ لاکھ بتاتے ہیں جھوٹامنتخب ممبر بھلائی کا کیا کام کرے گا؟ایسا نہ کیا گیا تو اربوں پتی افراد ہی دھاندلیوں کے ذریعے منتخب ہوتے رہیں گے۔ کبھی ق کبھی ن لیگی کبھی انصاف کبھی اے این پی کی ٹکٹیں بھرپور چندہ دے کر چھتریاں تبدیل کرکے مخصوص افراد جیتتے اور غریبوں کی گردنو ں پر بدستور سوار رہیں گے۔ملکی سا لمیت دائو پر لگی ہوئی ہے۔بیرونی اسلام دشمن ایجنسیوں راء ،سی آئی اے ،موساد نے بھاری رقوم انویسٹ کرکے اپنے ٹائوٹ منتخب کروالیے تو پھر کہیں ہمیں خدانخواستہ دو بارہ1970کے انتخابات کے نتیجے میں مشرقی بازو کو کٹوانے کی طرح کے عمل سے نہ گزرنا پڑے اس لیے ایک دفعہ بطور تجربہ ہی سہی اوپر بیان کردہ طریقہ پر انتخابات منعقد کروائے جائیں۔اور ہمیشہ سے منتخب ہوتے افراد سے بذریعہ بیلٹ اقتدارکی باگیں چھن جائیں تو ہی ملکی نظام کی اصلاح ہو گی۔
موجود ہ بیشتر سیاسی جماعتیں خاندانی کلب ہیں اس لیے کسی کے خلاف کاروائی خود ان کے خلاف کاروائی ہو گی اگر پی پی پی نواز شریف کے خلاف احتساب کا نعرہ لگا کر آگے بڑھے گی تو راجہ رینٹل گیلانی و دیگر وزراء کے مقدمات سامنے آجائیں گے عمران بڑھے تو اس کی اپنی لندن والی نیازی کمپنی اور اے ٹی ایم کارڈز کی لیکس کی بنیاد پر گرفت ہو گی۔اسی لیے اچھل کود بہت اور نتیجہ بندر اور مداری کے تماشے کی طرح صفر رہے گا تقریباً سبھی کرپٹ سیاستدان الف ننگے ہو چکے۔
مشیعت ایزدی یہی ہے کہ گلی کو چوں محلوں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی تحریک اٹھے اور تمام جغادری سیاستدانوں کی ضمانتیں تک ضبط کرواڈالے تو ہی نئی اسمبلیاںان ٹھگوں کے ٹولوں سے حساب لے سکیں گی۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ کوئی صاحب فکر بتا سکیں تو مجھے اس کی جوتیاں سیدھی کرکے غلامی کرنے میں قطعاً کوئی عار نہ ہو گا۔