تحریر : مقصود انجم کمبوہ وطن عزیز کا کوئی ایک بھی نفسیات دان قوم کی نفسیات سمجھنے سے قاصر و لاغر ہے جبکہ شاطرانہ چالوں کے ماہر سیاستدان اس ہنر کو آنکھیں بند کر کے پانے میں کامیاب و کامران ہو چکے ہیں انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستانی قوم اندھی ،بہری اور گونگی صفات سے مالا مال ہے ۔چند ٹکوں پر بکنے والے متعدد لوگ سیاسی ورکر اپنے لیڈروں کی کالی کرتوتوں پر مر مٹنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔1993 ء کا جمہوری دور تھا انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں سیاسی جلوس اور انتخابی ریلیاں نکل رہیں تھیں میرے علاقے کی معروف خاتون سیاستدان ڈاکٹر سیدہ نیلوفر مہدی نے شہر کے مشہور چوک ڈاکخانہ چوک میں انتخابی سٹیج سجا رکھا تھا ہزاروں شہریوں سے جلسہ کی رونق دو بالا ہو گئی تھی۔
اس اسٹیج پر میرے کلاس فیلو مسلم لیگی رہنماء ملک صدیق مرحوم بھی براجمان تھے جلسہ اپنے نقطہ عروج پر تھا جب ایک بزرگ شہری اپنی جگہ سے اُٹھا اور کہنے لگا ”بی بی جی ہمیں معاف کردو ہم نے اپنے ووٹ کا غلط استعمال کیا جس کی باعث شہر کی فضا متعفن رہی بہت سے شریفوں کے گھر لٹے ،راہزنوں نے جی بھر کر اپنا کام کیا سیاسی ورکروں نے تبادلوں اور تقرریوں کے عوض انکی عزتیں لوٹیں پیسے کمائے اور شریف شہریوں ،صحافیوں کے خلاف من گھڑت مقدمے قائم کروائے بی بی جی اب ہم غلط فیصلے کبھی نہیں کریں گے جو ہو چکا سو ہو چکا ،بی بی جی سیدہ نیلوفر نے اس بزرگ کے جملوں کے جواب میں کہا کہ تم لوگ کبھی باز نہیں آئو گے تم کسی شریف امیدوار کو ووٹ نہی دو گے یہ تم جذبات میں کہہ رہے ہو تم شریف شہریوں کی فطرت کبھی نہیں بدلے گی تم لوگوں نے چوروں ،ڈاکوئوں اور راہزنوں سے رشتے داریاں و دوستیاں بنا لی ہیں تم مجھے ووٹ نہیں دو گے ہر گز نہیں دو گے۔
تمہارے خون میں مکاری رچ بس چکی ہے اور ہر پانچ سال بعد یہی رونا روتے ہو پھر چند ٹکوں میں اپنا ووٹ فروخت کر لیتے ہو اس ڈرامے کی مکمل فلم میرے دماغ میں نقش ہے جب تم نے ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ بنایا جس نے تمہاری کھال تک نوچی اور تم لوگوں نے اُف تک نہ کی ایک بزرگ مرحوم صحافی پر اتنے جھوٹے کیس بنوائے کہ اس نے تنگ آکر اپنے دو بچوں کو وکالت کروائی۔سیدہ نیلوفر کی وہ باتیں سو فیصد درست ثابت ہوئیں لوگوں نے پھر اپنی اوقات دکھا دی سیدہ نیلوفر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر قصور شہر میں چلی گئیں انہوں نے عیارانہ اور مکارانہ سیاست کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا اگر وہ رکن اسمبلی بننے کا فیصلہ کر لیتی تو وہ پوری اسمبلی خرید کر وزیر اعظم بن جاتیں مگر انہوں نے کبھی ایسا سو چا بھی نہیں۔
National Assembly
میں نے انکو بڑے قریب سے دیکھا ہے دو تین بار ان سے بحث و مباحثہ بھی ہوا مگر انہوں نے کہا نہیں بھائی جان میں مکار عیاراور لٹیرے سیاسی ورکروں کے ساتھ کام نہیں کر سکتی انہوں نے کہا کہ یہ وہ سیاسی ورکر ہیں جنہوں نے سردار طفیل احمد خاں کی سیاسی کشتی میں سوراخ کر کے ڈبویا اب میرے اردگرد گھوم رہے ہیں میں ان کو کبھی اپنے دفتر میں گھسنے نہیں دوں گی جی ہاں پھر ایسا ہی ہوا ۔سیدہ نیلوفر نے ایسے سیاسی ورکروں اور لیڈروں کے ساتھ کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور اپنا سیاسی سفر جاری رکھا پھر ایسا بھی ہوا کہ نیلوفر کو ہم سے دور کر دیا گیا اس کے ایک مینجر کو ٹاسک دیا گیا کہ ان لوگوں کو نیلوفر کے قریب نہ جانے دیا جائے۔
ہمارے شہر یوں کا مزاج کچھ اسطرح کا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کی نسبت ان پڑھ جاہل اجڈ بد دیانت اور بد قماش امیدواروں کو پسند کرتے چلے آرہے ہیں ۔شاید میرے شہر کی دھرتی کا پانی اور اناج ہی ایسا ہے جو ہمیں محب وطن اور اچھی سوچ کا مالک ہی نہیں بننے دیتا مجھے اپنے شہر کے لوگوں سے ہمیشہ گلا رہا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے اس حلقے میں ڈاکٹر سیدہ نیلوفر کے علاوہ صاحبزادہ احمد رضا قصور ی اور چوہدری سرور ایڈو وکیٹ مرحوم جیسی شخصیات عوامی جذبات سے لبریز تھیں جن کو عوام نے ووٹ دے کر منتخب نہ کر کے اپنی تباہی کاسامان خود پیدا کیا ،چوہدری سرور بعد ازاں ہائی کورٹ کے جج بنے۔
اب شہر کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے کیا کریں ہمارے شہریوں نے کبھی احتجاج نہیںکیا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر آواز اُٹھانے کی جرات رکھتا ہے اندر ہی اندر کڑھتے سب ہیں مگر بڑے بڑے مکار سیاسی ورکر اور لیڈر ہماری باتوں سے اتفاق نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں آپ لوگوں کی فطرت ہے مخالفت میں بولنا اور لکھنا ۔آخر میں ایک بار پھر اپنے شہر کے لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرتا ہوں کہ آئیندہ انتخابات میں آنکھیں کھول کر ووٹ دینا اسی میں ہم سب کی فلاح وبہتری ہو گی ورنہ پھر دمادم مست قلندر ہو گا اور اگلے پانچ سال پھر اسی دوزخ میں جلتے کڑھتے رہیں گے جس کو منتخب عوامی نمائندوں نے جلا کررکھا ہے اور کرپشن کی پیپ بھر رکھی ہے۔