تحریر : ملک محمد سلمان چاہیے تو یہ تھاکہ سوشل میڈیا کو ہم محبت ، رواداری اور امن و امان کے فروغ ،مسائل سے آگاہی اور تعمیر وطن کا ذریعہ بناتے ،لیکن اس کے برعکس سوشل میڈیا پر موجود شرپسنداور تخریبی سوچ کے حامل عناصر نے اسے لوگوں کو ذلیل کرنے اور شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔سیاست ،معاشرت اور دین کسی کو نہیں بخشا،اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی بدولت سب کو خوب لتاڑا،گھٹیا الزامات اور بہتان بازی میں شرم و حیا کی تمام حدود پار کردیں۔سوشل میڈیاپر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جو اپنے حلقے کی ہرصحیح و غلط بات میں تائید کرتے ہیں، جبکہ مخالف حلقے کے ہراچھے برے کاممیںکیڑے نکالنافرض سمجھتے ہیں اور مخالفین کے نظریے، مذہب، رہنمائوں اور محترم شخصیات کی توہین سے بھی بعض نہیں آتے، جس سے مسلکی اورسیاسی تعصب میں اضافہ ہورہا ہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ سوشل میڈیاپر کسی کے متعلق آپکی کہی ہوئی بات ٹھیک ہے تب بھی اس کا شمار غیبت میں ہوگا اور یہ وہ گنا ہ ہے جس کی معافی اس وقت تک نہیں ملتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی ہو اور سنگین الزام کے متعلق تو نبیۖ نے واضح فرمایا ہے کہ بہتان گناہ ِعظیم اور ہلاک کردینے والا عمل ہے۔باقی مماملک کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ان دہشت گردوں کو لگام دینے کیلئے سائبر کرائم پر قانون سازی کی گئی ،پہلی دفعہ سائبرکرائم ایکٹ کا نفاظ31دسمبر2007کومشرف کے دور حکومت میںہوا،موجودہ حکومت نے بھی اس مسئلے کے حلکیلئے اپریل 2015میں قومی اسمبلی سے ایک ترمیمی بل ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس ”پاس کروایا، جس میں تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لیکر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین کیا گیا۔اس قانون کا اطلاق صرف انٹرنیٹ پر ہی نہیں بلکہ تصویر کشی اور پیغام رسانی کیلئے استعمال ہونے والے تمام برقی آلات مثلاًکیمرہ اور موبائل فون وغیرہ پر بھی ہو گا۔آرڈیننس میں مختلف جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
موبائل یاسوشل میڈیا پر صارف کی مرضی کے خلاف اشتہار بازی کا پیغام بھیجنے پر پچاس ہزار جرمانہ اور تین ماہ کیلئے جیل کی ہوا کھانی پڑسکتی ہے۔کسی فرد کے بارے میں غلط معلومات اور پروپیگنڈاپھیلانے والے کیلئے دس لاکھ جرمانہ اورتین سال قید کی سزاتجویز کی گئی ہے۔سیکشن 21کے تحت کسی کی تصویر ،آڈیو یا ویڈیو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرنے والے کو ایک سال تک قید اور دس لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیںسائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 17اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ اورتجزیہ میںتضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔اسی طرح مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔
Law
سیکشن 31میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ غیر اخلاقی اور قابل اعتراض مواد رکھنے والی کسی بھی ویب سائٹ یا اکائونٹ کو بلاک کر سکتا ہے۔مجوزہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے اور کیس کی پیروی سات رکنی بینچ کرے گا ۔ فیصلے کے خلاف صرف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔قانون پر عملدرآمد کا اختیار ”فیڈرل انویسٹٹیگیشن ایجنسی”(ایف آئی اے)کو دیا گیا ہے جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر ،لیب ٹاپ ،موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کرسکتی ہے۔ان قوانین کے نفاظ سے یقینی طور پر سماجی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے والے سوشل میڈیا کے دہشت گردوں کا قلع قمع ممکن ہوگا۔
اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوچکا ہے۔قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک یہ بل سینٹ میں نہیں لایا جا سکا۔ اس آرڈیننس کے غیر مؤثر ہونے اور ایف آئی اے کی سائبر کرائم ٹیم کی کاہلی کی وجہ سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے علاوہ موبائل فون کے ذریعے جرائم کرنے والے افراد کے خلاف سائبر کرائم کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے لاکھوں کیس التواء کا شکار ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق اس قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا خدشہ ہے اور اس قانون کا کسی کے بھی خلاف غلط استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ قانون مبہم ہے اور اس میں جرائم کی پوری طرح وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تنازعات پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ کسی چیز کے نفرت انگیز ہونے یا نہ ہونے کی غلط تشریح بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہی کہ اس بل کے متنازع پہلوئوں پر ضروری ترمیم کے بعد جلد از جلد قانون سازی کی جائے تاکہ ایسے تمام عناصر جو اپنی ذہنی غلاظت کے ہاتھوں مجبور ہوکر شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہیںاورمذہبی و مسلکی منافرت پھیلارہے ہیںانکے خلاف موئژ کاروائی عمل میں لاکر سوشل میڈیا سے ان شر پسندوں کا خاتمہ ممکن ہواور وطن عزیز پاکستان میں مثبت اور تعمیری سوچ کو فروغ دیا جا سکے۔