تحریر : سید انور محمود پاکستان میں آج انہتر سال بعد بھی خواتین اور بچیوں کے ساتھ فرسودہ روایات پر مبنی جاہلانہ اور بہیمانہ برتاؤ کسی مؤثر روک ٹوک کے بغیر جاری ہے اور پسند کی شادی کے جرم میں لڑکیوں کو ان کے اپنے عزیز و اقرباء کے ہاتھوں ہر ممکن درندگی و سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جانے کی عملاً کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ایک نیا رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ بچیوں کو زندہ جلایا جارہا ہے۔ لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی 17 سالہ زینت کو دھوکے سے گھر لے جاکر ماں، بھائی اور بہنوئی نے پیٹرول چھڑک کر جلادیا، پولیس کے مطابق مقتولہ کی ماں نے جرم کا اعتراف کرلیا تھا، لیکن اس کا بھائی فرار تھا جو اب پکڑا گیا لیکن میڈیا کے سامنے اپنے جرم سے انکار کررہا ہے، وہ سارا الزام اپنی ماں پر لگارہا ہے۔مری میں رشتہ سے انکار پر 19 سالہ اسکول ٹیچر ماریہ کو اپنے سے دوگنی عمر کے مرد کے ساتھ شادی سے انکار پر جلا کر مار دیا گیا تھا۔
ایبٹ آباد میں ایک لڑکی کی سہیلی کو پسند کی شادی کرنے میں مدد فراہم کرنے کے شبہ میں جرگہ نے کھلے عام جلا دیا ، اس جرم میں پورا گاؤں شریک تھا اور ماں نے بھی جرگے کا ساتھ دیا، بلکہ اُن کو مدد بھی فراہم کی۔ انسانی حقوق کمیشن کی گزشتہ اپریل میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال میں گیارہ سو لڑکیاں اور عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں، جبکہ پاکستانی خواتین کو اکثر اس بنیاد پر بھی قتل کردیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کم جہیز لیکر آیں تھیں۔ 25فروری 2016ء میں رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی خواتین حقوق کے ایک گروپ ’’عورت فائونڈیشن‘‘ نے بیان کیا کہ پنجاب میں خواتین کے خلاف 5ہزار آٹھ سو جرائم ہوئے جو کہ پورے پاکستان میں ہونے والے خواتین کے خلاف جرائم کا 74فیصد ہے۔ یہاں دو پہلو سامنے آتے ہیں پہلا یہ ہے کہ ہم سماجی طور پر تباہی کی طرف جارہے ہیں جبکہ دوسرا پہلویہ ہے کہ ہم بدترین معاشی پسماندگی کا شکار ہیں۔
پاکستانی فلمساز اور ہدایتکارہ شرمین عبید چنائے نے اپنی دستاویزی فلم ’دا گرل اِن دا ریور:پرائس فار فورگیونیس‘ کے زریعے ایک نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے29 فروری 2016 کوپاکستان کیلئے دوسرا آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ اس فلم سے پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا مسئلہ اجاگر ہوا ہے۔ ممتاز مذہبی اسکالرمفتی نعیم نےشرمین عبید کے دوسری بار آسکر ایوارڈ جیتنے پہلے ہی اسے بے حیا کا خطاب دے دیا تھا۔ شرمین عبید کے دوسری بار آسکر ایوارڈ جیتنے پر صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف اور دیگر اہم شخصیات نے مبارکباد پیش کی۔
Sharmeen Obaid
جبکہ ایوارڈ جیتنے کے بعد شرمین عبید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے یقین دھانی کرائی ہے کہ وہ آنر کلنگ کیخلاف قانون سازی کریں گے جو کسی بھی ایوارڈ سے بڑھ کرہوگی، افسوس نواز شریف کی یہ یقین دھانی صرف یقین دھانی ہی رہی۔ اگرچہ ملک میں غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری جیسے گھنائونے جرائم پر قانون سازی تو کی گئی لیکن اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا اور یہ دونوں سنگین جرائم جاری و ساری ہیں۔ لاہور میں 17 سالہ زینت کے جلائے جانے کے بعد چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس سنگین معاملے کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال نہایت افسوسناک اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے لہٰذا اس کے خلاف سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔
چیئرمین سینیٹ اور ارکان کی جانب سے ملک میں لڑکیوں کے زندہ جلائے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف بجا طور پر شدید تشویش اور سخت مذمت کا اظہار کیا گیا اور اس بہیمانہ جرم کے خلاف فوری اور مؤثر قانون سازی پر زورد یا گیا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے یہ اہم انکشاف کیا کہ سینٹر صغریٰ امام کی جانب سے ایسے معاملات میں سمجھوتہ نہ کیے جانے سے متعلق جو مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا، دونوں ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش نہ ہونے دیا جائے جس کے نتیجے میں تینوں بچیوں کے قاتل چھ ماہ بعدآزاد گھوم رہے ہوں گے۔ جب سینٹ میں شدید تشویش اور سخت مذمت کا اظہار کیا گیا اور دوسری طرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر احتجاج شروع ہوا تو پاکستانی علما اور اسلامی نظریاتی کونسل نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بیانات جاری کیے۔ پاکستان کے چالیس بااثر مذہبی علماء نے غیرت کے نام پر قتل کو’’غیر اخلاقی اور ناجائز‘‘ قرار دے دیا ہے۔
جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اوپر بہت زیادہ عوامی تنقید کے بعد غیرت کے نام پر قتل کو جرم قرار دیا اور کونسل کے مطابق وہ یہ رائے 16 سال پہلے بھی دے چکی ہے۔ کونسل کا یہ بیان ایک عوامی دباو کا نتیجہ ہے، ورنہ اسلامی نظریاتی کونسل کو خواتین پر تشدد کرنے کی فکر تو تھی لیکن انسانی جانوں کے ضیاع پر وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئی تھی، 16 سال پہلے موجودہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی، بحیثیت رکن کونسل اس ورکنگ گروپ کے ممبر تھے جس نے یہ رائے دی تھی۔ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ کونسل کو بے گناہ مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہےکہ بغیر کسی از سر نو جائزہ کے کونسل کا کہنا ہے کہ ’’کمیٹی کی رائے میں اس وقت ملک میں اس مسئلہ سے متعلق رائج قانون شریعت کے مطابق ہے، اس بارے میں کسی مزید قانون سازی یا ترمیم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
Law
حکومت کی جانب سے قانون سازی کرکے سخت سزائیں تجویز کی گئیں لیکن اسکے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور پولیس آہنی ہاتھ سے اس کے تدارک اور روک تھام کےلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے یوں قاصر ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں خاندان کے لوگ نہ صرف شریک بلکہ اس میں ملوث بھی ہوتے ہیں۔ کافی واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کہ خاندان کے لوگ مل کر بہن یا بیٹی کو قتل کرتے ہیں، اس کے بعد ایک فرد پر جرم عائد کروا دیا جاتا ہے۔ بعد میں خاندان کے دوسرے افراد معافی دینے کا ’’شرعی حق‘‘ استعمال کرتے ہوئے اپنے اس بیٹے یا بھائی کو بری کروا لیتے ہیں، جس نے ان سب کی مرضی و صوابدید سے ہی اس جرم کا ارتکاب کیا ہوتا ہے(شاید لاہور کی 17 سالہ زینت کا بھائی اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنے جرم سے انکاری ہے)۔ اگر حکومت ان جرائم کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسےاس طرح کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ضرورت ہے کہ اول دور دراز علاقوں میں جرگہ سسٹم ختم کیا جائے اور ایسے جرائم کے خاتمہ کے لئے فوری اقدام کئے جائیں جس کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مشکل یہ ہے کہ ان جرائم کےلیے ملک کےموجودہ قوانین مجرموں کوسزا دینے میں ناکافی ہیں، اس لئے ان میں تبدیلی کرنے اور انہیں موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایسے جرائم میں ضمانت کا حصول مشکل بنانے کے علاوہ دیت ، قصاص اور معافی کے ذریعے جرم کی سزا سے بچنے کے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن کے مطابق اب ظلم کی انتہا ہوچکی ہے اور وقت آگیا ہے کہ اس درندگی کومزید کسی تاخیر کے ختم کیا جائے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ اس انسانیت سوز جرم کے لیے موت کی سزا مقرر کی جائے، اس جرم کو ناقابل معافی اور ناقابل مصالحت قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے اسے ملک بھر میں نافذ کیا جائے۔
لازمی بات ہے کہ اس قسم کی کسی بھی قانون سازی کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں اوراسلامی نظریاتی کونسل کی اب تک کی تاریخ یہ رہی ہے کہ خواتین کا غیرت کے نام پر قتل ہو یا جہیز کم لانے پر موت کی سزا، یہ بڑی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہے ہیں اور اس پراسرار طرز عمل سے غیرت کے نام پر قتل کو سماجی طور پر قبول کیا جانے لگا ہے ، اس جرم کو روکنا بہت ضروری ہے ورنہ آگے چل کر یہ پورئے پاکستانی سماج کی تباہی کا سبب بن جائے گا۔