تحریر: حبیب اللہ سلفی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دن بدن کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے بیشتر اتحادی ممالک کا جھکائو واضح طور پر بھارت کی جانب ہے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے اس کی کھل کر پشت پناہی کی جارہی ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کے اہم رہنمااور جماعةالدعوة کے امیر حافظ محمد سعید نے چند دن قبل انکشاف کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کیخلاف ہندوستان کی سرزمین استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کیلئے اس نے مقبوضہ کشمیر اور انڈیا میں پاکستان کے سرحدی ایئرپورٹس پراپنے ڈرون طیارے پہنچا دیے ہیں۔ اسی طرح مختلف ایئرپورٹس پر میزائل بھی نصب کئے جارہے ہیں۔
جب پہلے دن یہ خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو بھارت و امریکہ کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے والے بعض دانشوروںنے اسے محض جذباتی باتیں کہااور اصل حقائق مسخ کر کے ان باتوں کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے دوران جب ایک دوسرے کا فوجی نظام استعمال کرنے کے باضابطہ معاہدوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ امریکہ ہندوستان کے فضائی، بحری اور فوجی اڈے استعمال کر سکے گا اور خطہ میں امن کے قیام کے نام پر پاکستان کے حوالہ سے دھمکی آمیز ز بان استعمال کی گئی تو بھارت نوازبعض حکومتی وزراء کی طرح ان دانشوروں کی زبانوں پر بھی تالے لگ گئے ہیں تاہم ان میں سے کئی اب بھی ایسے ہیں جو پاکستانی قوم کو صبر و تحمل کا درس دیتے ہوئے بھارت و امریکہ کی جارحیت کو خاموشی سے برداشت کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ،بھارت، اسرائیل اور ان کے اتحادی ملک جس طرح اب کھل کر وطن عزیز پاکستان اور اس کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کیلئے کمر بستہ نظر آتے ہیں ماضی میں ایسی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اس وقت 1971ء سے بھی زیادہ خطرنات حالات سے دوچار ہے تو غلط نہیں ہو گا۔
India
اتحادی ممالک افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں اور جس طرح پرویز مشرف پر دبائو بڑھا کر پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان پر چڑھائی کی گئی اسی طرح اب بھارتی اڈے اور بندرگاہیں استعمال کر کے پاکستان کو انتقام کا نشانہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ہندوستان جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا وہاں برسر اقتدار نریندر مودی جیسے حکمران اپنے لئے اس موقع کو بہت سنہری خیال کرتے ہیں اور امریکہ کو اپنا فطری اتحادی قرار دیتے ہوئے پاکستان کی مخالفت میں ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ بھی ہندوستان کو نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شامل کروانے جیسے لالچ دے رہا ہے۔ ویانا میں نیوکلیئر سپلائر گروپ کا دوروزہ اجلاس تو ختم ہو گیا ہے تاہم امریکہ ہندوستان کو اس کی رکنیت دلانے کیلئے ابھی تک بدستور سرگرم ہے۔ اجلاس سے قبل این ایس جی کے رکن ممالک کے نام امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ جنوبی کوریا میں ہونے والے اجلاس میں بھارتی شمولیت کے معاملہ کی مخالفت نہ کی جائے اور اسے رکن بننے کا موقع دیا جائے یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک نے ہندوستان کی حمایت کی لیکن اللہ بھلا کرے چین کا کہ اس کے سخت موقف اپنانے کی وجہ سے نیوزی لینڈ، ترکی، جنوبی افریقہ اور آسٹریا نے بھی بھارت کی مخالفت کی جس پر بھارتی میڈیا سیخ پا نظر آتا ہے اور شور مچایا جارہا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ بھرپور کوشش کے باوجود اڑتالیس ممالک کے نیوکلیئر سپلائر گروپ میں ہندوستان کو شامل کروانے میں ناکام رہی ہے۔ بہر حال ابھی اس کا حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر اس سلسلہ میں مزید لابنگ کرنا ہو گی اور بین الاقوامی دنیا کو یہ باور کروانا ہو گا کہ اگر اسے این ایس جی رکن ممالک میں شامل نہیں کیا جاتا تو ہندوستان کو بھی کسی صورت اس کی رکنیت نہیں ملنی چاہیے۔
بھارت امریکہ معاہدوں کے بعد انکل سام کی اس خطہ میں مداخلت میں یقینی طور پر اضافہ ہو گااور بھارت بھی خطہ میں چودھراہٹ دکھانے کی کوششوں سے باز نہیں آئے گا جس سے معاملات مزید خرابی کی جانب بڑھیں گے۔انڈیا سے پاکستان مخالف معاہدوں اور سرحدی ایئرپورٹس پر ڈرون پہنچائے جانے کی اطلاعات کے بعد پاکستان کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا تاہم اس کے جواب میں امریکیوں کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ۔ہندامریکہ معاہدوں کیخلاف پاکستان کے پرزور احتجاج کے باوجود امریکہ کی جانب سے ڈو مورکی رٹ لگاتے ہوئے نام نہاد دہشت گردی کیخلاف تعاون کے مطالبات کئے جارہے ہیں اور اصل ایشو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
Drone Attack
ان حالات میں یہ امر خوش آئندہے کہ پاکستانی عسکری قیادت نے نوشکی میں ڈرون حملہ اور بھارت، امریکہ معاہدوں کے حوالہ سے مضبوط سٹینڈ لیا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام سے گفتگو کے دوران کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ ملا اختر منصور جب تک ایران میں تھا اس وقت تک تو امریکہ خاموش رہا لیکن پاکستانی حدود میں داخل ہوتے ہی اسے ڈرون حملہ کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ اور یہ کہ امریکہ پاکستان میں دھماکوں اور قتل و غارت گری میں ملوث ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کیوں نہیں کرتا؟۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی وفد میں شامل رچرڈ اولسن اور جنرل جان نکولسن سے گفتگو کے دوران باور کروایا کہ بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکی حکام بھارت سے معاہدوں کے بعد پاکستان کو جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں سے بہلانا چاہتے ہیں لیکن ہم امید رکھتے ہیں کہ ساری صورتحال واضح ہونے کے بعد پاکستانی قیادت اب ان شاء اللہ کسی دھوکہ میں نہیں آئے گی۔ان حالات میں سیاسی قیادت کو بھی پاک فوج کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف لندن میں زیر علاج ہیں اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے علاوہ کوئی بھارت و امریکہ کیخلاف لب کشائی کیلئے تیار نہیں ہے کہ کہیں امریکہ ناراض نہ ہوجائے۔ سرتاج عزیز بھی جی ایچ کیو اجلاس کے بعد بولے اور شکر ہے کہ انہوںنے یہ بات تسلیم کر لی کہ امریکی ضرورت پڑنے پر آتے اور مطلب نکل جانے پر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔بہرحال اس وقت وطن عزیزپاکستان کو درپیش بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے پوری قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے مگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کا نمائندہ اتحاد دفاع پاکستان کونسل اس سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی نیٹو سپلائی ، ڈرون حملوں اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کیخلاف کونسل نے زبردست مہم چلائی جس کے نتیجہ میں کئی ماہ تک نیٹو سپلائی بند رہی اور ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی کافی حد تک رک گیا تھا۔ اب ایک بار پھر جب بلوچستان میں ڈرون حملہ میں ملا اختر منصور کو شہید کرکے پاکستان میں فساد بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور بھارتی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشیں کی جا رہی ہیں دفاع پاکستان کونسل ملک گیر تحریک جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلہ میں لاہور، اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں پروگراموں کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں عوام الناس کی بہت بڑی تعداد میں شرکت دیکھنے میں آئی ہے۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غیور پاکستانی قوم میں دفاع پاکستان کیلئے کس قدر زبردست جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ بھارت و امریکہ کی جارحیت کو کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔دفاع پاکستان کونسل کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ ناصر باغ لاہور میں ہونے والی دفاع پاکستان کانفرنس بھی اس لحاظ سے بہت کامیاب رہی کہ شدید گرمی کے باوجود ہزاروں افراد نے روزہ کی حالت میں پروگرام میں شرکت کی اوراس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملک کے دفاع کیلئے پاکستانی قوم کا بچہ بچہ کٹ مرنے کیلئے تیار ہے۔
رمضان المبار ک میں عام طور پر تحریکوں کو زندہ رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے لیکن مولانا سمیع الحق کی زیر قیادت کونسل میں شامل جماعةالدعوة جیسی تنظیموںنے یہ بات بھی ثابت کر کے دکھا دی ہے کہ اگر خلوص نیت سے محنت کی جائے تو یہ کام بھی مشکل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ملکی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کیلئے دفاع پاکستان کونسل کا ساتھ دیںتاکہ متحد ہو کر بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔