تحریر: حبیب اللہ سلفی سعودی عرب سمیت 59 ممالک نے اقوام متحدہ کے تین اعلیٰ عہدیداروں کو ایک مشترکہ خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے تنازعہ کے حل کی خاطر کردارا دا کرے۔ اس خط پر اقوام متحدہ میں متعین سعودی عرب، امریکا، برطانیہ، قطر اور ترکی سمیت نو ممالک کے سفیروں کے دستخط ہیں اور انسٹھ ممالک کے سفارتی مشنوں نے اس امر کی توثیق کی ہے۔
خط میں شام کے متاثرہ علاقوں تک فوری طور پر مکمل اور بلا روک ٹوک امدادی سامان پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ وہاں انسانی بحران اور جنگ بندی سمجھوتے کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔چار صفحات پر مشتمل یہ خط یو این کے سیکرٹری جنرل، جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے صدر کو بھیجا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس وقت قریبا چھیالیس لاکھ افراد شام میں ایسے علاقوں میں رہ رہے ہیں جہاں بڑی مشکل سے انسانی امداد کی رسائی ہوسکتی ہے اورتقریبا چھ لاکھ ملک کے محاصرہ زدہ انیس علاقوں میں رہ رہے ہیں۔شام میں مارچ 2011ء سے جاری لڑائی میں اب تک دو لاکھ اسی ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور چالیس لاکھ سے زیادہ اندرون اور بیرون ملک در بدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین نے کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ جار ی کی جس کے مطابق اس وقت دنیا میں ہر 122 افراد میں سے ایک شخص پناہ گزیں ہے یا اندرون ملک بے گھر یا پناہ کی تلاش میں ہے۔ جنگ اور تشدد کے باعث اندرون ملک اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد 6 کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔
Syrian Refugees
ان مہاجرین میں سے 4 کروڑ کے قریب افراد تشدد اور خانہ جنگی کے باعث اپنے ہی ملک میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں 80 لاکھ سے زائد تھی۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد جنگ عظیم دوم کے دوران بے گھر افراد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے جن میں سے نصف سے زائد بچے ہیں۔مہاجرین کی حالیہ تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ شام میں جاری خانہ جنگی بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد ترکی سمیت مختلف ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اورشامی مہاجرین کی تعداد افغان مہاجرین سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے 107 ممالک میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد 40 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جبکہ افغان مہاجرین کی تعداد 25 لاکھ کے قریب بتائی گئی ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مسلمانوں کی تعداد رواں برس 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور یوں ترکی اس وقت پاکستان جہاں پناہ گزینوں کی تعداد انیس لاکھ کے قریب ہے’ کو پیچھے چھوڑ کر مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ شام کے شہری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر اور پناہ گزین ہیں۔غاصب بشار الاسد حکومت کے مظالم کا شکار شہری مسلسل اپنی جانیں بچانے کیلئے ہجرت کر رہے ہیں لیکن اس دوران بھی انہیں تحفظ حاصل نہیں ہے۔
امن کی تلاش میں سرگرداں شامی مہاجرین اپنے ملک سے نکلنے کیلئے ہر طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شام کی انسانیت سے عاری فوج کے اہلکار ہجرت کی کوشش پر اپنے ہی ہم وطنوں کو گولیوں سے بھوننے سے باز نہیں آتے۔ اردنی فوج کے ذمہ داران بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے بارہا کہہ چکے ہیں کہ شامی فوج سرحد کے قریب پھیل چکی ہے اور مہاجرین کے قافلوں کو ایک ہی آن میں ختم کرنے کیلئے بسا اوقات شامی فضائیہ کو بھی ان قافلوں پر بمباری کیلئے استعمال کرتی ہے۔
شام میں بشارالاسد حکومت کی طرف سے اپنے عوا م پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔اس ملک کی نصف کے قریب آبادی عرب اور دوسرے ممالک میں ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے لیکن عصر حاضر کے فرعون بشار الاسد کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہوئی اور شامی شہریوں پر مظالم کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ شامی مہاجرین کے حوالہ سے نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا اور معنی خیز خاموشی اختیا رکئے رکھی ۔ اس دوران بعض قوتوں کی جانب سے منظم سازشوں ومنصوبہ بندی کے تحت امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس کی طرف سے شامی مہاجرین کو پناہ نہیں دی جا رہی حالانکہ یہ بات سرے سے غلط ہے۔
سعودی عرب تو وہ ملک ہے جس نے بحران کے آغاز کے ساتھ ہی اس مسئلہ سے خالصتا دینی اور انسانی بنیادوں پر نمٹنے کی کوشش کی اور شام میں بحران پیدا ہونے کے بعد سے 25 لاکھ شامی شہریوں کو پناہ دی۔اتنی کثیر تعداد میں شامی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے باوجود سعودی حکومت نے اپنی خدمات کی نمائش یا میڈیا کے ذریعہ چرچا کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ جب سعودی عرب کے خلاف گمراہ کن اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے تو پھر بے بنیاد پروپیگنڈا پر مبنی میڈیا رپورٹس کا جواب دیتے ہوئے اصل حقائق منظر عام پر لائے گئے ۔ شام میں بحران پیدا ہونے کے بعد سے اب تک سعودی عرب نے اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ لاکھوں شامی مہاجرین کے ساتھ پناہ گزینوں جیسا سلوک روا نہ رکھا جائے یا ان کو محض پناہ گزین کیمپوں میں محصور نہ کر دیا جائے بلکہ ان کے وقار اور تحفظ کو یقینی بنایا اور ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔
انہیں نقل وحرکت کی مکمل آزادی فراہم کی گئی اور ان میں سے جن لاکھوں شامی شہریوں نے سعودی عرب میں رہنے کی خواہش کا اظہار کیا ان اس سب کواسی طرح باقاعدہ رہائشی پرمٹ جاری کیے گئے ہیں جس طرح دیگر غیر ملکی سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔ اسی طرح انہیں تعلیم اور طبی سہولیات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد شامی طلبہ وطالبات سعودی عرب میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
Saudi Arabia
شام میں انسانی سانحہ کے بعد سعودی عرب کی کاوشیں محض اپنے شامی بھائیوں کو پناہ دینے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اردن، لبنان اور دوسرے پڑوسی ممالک میں پناہ لینے والے لاکھوں شامی بھائیوں کی ضروریات زندگی بہتر بنانے کیلئے میزبان حکومتوں کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پربڑے پیمانے پر امداد فراہم کی جا رہی ہے۔سعودی عرب کی خدمات کا اعتراف کویت میں 31 مارچ 2015ء کو ہونے والی تیسری بین الاقوامی عطیہ دہندگان کانفرنس میں بھی کیا گیا۔شامی مسلمانوں کو اب تک 700 ملین ڈالرسے زائد امداد فراہم کی گئی ہے۔یعنی اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب ہمیشہ برادر شامی مسلمانوں کی امداد کے لئے سب سے آگے رہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
بہرحال سعودی عرب سمیت 59ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کے تین اعلیٰ عہدیداروں کو بھیجے گئے مشترکہ خط میں کئے گئے مطالبات بالکل درست ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے مسلم خطوں و علاقوں کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی ظالم قوتوں کا ہاتھ روکنے کیلئے عملی طور پر کوئی کردار ادا کیا جاتا ہے۔
شام میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بشار الاسد حکومت کی ہٹ دھرمی اور جارحیت کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک کوئی امداد نہیں پہنچ پارہی اس لئے سعودی عرب و دیگر ممالک کی جانب سے متاثرہ علاقوں تک بلا روک ٹوک امدادی سامان پہنچانے کے مطالبات پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔اگر اقوام متحدہ شام کے مسئلہ پر بھی مجرمانہ خاموشی اختیا رکرتی ہے تو دنیا کو یہ کہنے کا موقع ضرور ملے گا کہ یہ ادارے بنائے ہی مسلمانوں پر بے جا پابندیوں کیلئے گئے ہیں اور مسلمانوں کے درپیش مسائل کے حل کیلئے یہ کسی طور مخلص نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یواین جیسے اداروں کو ان الزامات سے بچنے کیلئے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمان ملکوں کے مسائل کے حل کیلئے بھی سنجیدگی سے کوششیں کرنی چاہئیں۔