تحریر : سالار سلیمان اس سال کے اوائل میں جب سشما سراج پاکستان کے دورے پر موجود تھیں تو میں ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے رپورٹر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ میں ادارے کی درخواست پر بذریعہ بس اسلام آباد پہنچا اور اپنے دوست کے ہمراہ ایک نجی ریسٹ ہاوس میں عارضی رہائش اختیار کی۔ہمار ے پاس وقت کی کمی تھی کہ کل صبح میں سشما سراج نے اسلام آباد میں ہارٹس آف ایشیاء کانفرنس کیلئے آنا تھا۔ سشما سراج آئیں ‘ انہوں نے ائیر پورٹ پر میٹھی میٹھی باتیں کی’ کانفرنس میں ذومعنی جملے بولے اور واپس بھارت روانہ ہوگئیں۔ اس دورے میں انہوں نے ہم پاکستانیوں کو سکھایا تھا کہ سفارت کاری کیا ہوتی ہے اور کسی کانفرنس کیلئے مکمل تیاری کیسے کی جاتی ہے۔
خیر’ اسی دوران میں بطور رپورٹر اور تجزیہ کار ہمسایہ ملک کے چینل کی سکرین پر بھی نمودار ہو رہا تھا۔ مباحثے میںہمسائیہ ملک کے ہی ایک صاحب نے مجھے کہا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پاکستان اور بھارت میں دیر پا امن رہے گا اور مستقبل میں کوئی اور فساد پاکستان کی جانب سے نہیں آئے گا۔میں اس سوال پر جل کر رہ گیا تھا’ دل تو کیا کہ اس کی آن ائیر ماں بہن ایک کر دوں لیکن معاً مجھے خیال آیا کہ میں یہاں پر بطور پاکستانی موجود ہوںاور اگر میں نے بھی اسے اس کے مقام پر جا کر جواب دے دیا تو پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا؟ یہ خیال آتے ہی میں نے اس کو کہا کہ جناب ہندوستان اور پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے ‘ ماضی کی بحث میںالجھے رہیں اور مستقبل کو بھول جائیں اور یا پھر مستقبل کیلئے تیار ہونے کیلئے ماضی کو بھلا دیں۔
انہوں نے میری اس بات کی بھی نفی کر دی اور اس اصرار سے سوال دہرایا کہ پاکستان ہی دہشت گردی کو ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا لیکن میں نے ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن سے کہا کہ یادوو صاحب’ آپ نے ابھی تک محض الزامات ہی لگائے ہیں لیکن اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر کوئی بھی دلیل پیش نہیں کی ہے ‘آپ ایسا کر بھی نہیں سکیں گے کیونکہ آپ ایسا کرنے سے قاصر ہیں، آپ ایسا اس لئے بھی نہیں کر سکیں گے کہ آپ کیا آپ کی پوری نفری مل کر اپنے دوسرے جنم میں بھی ایسا نہیں کر سکے گی کیونکہ جھوٹ بنانے کیلئے درکار وقت آپ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ممبئی حملے ہم نے کئے ہیں ‘ پاکستان نے کئے ہیں تو اس بات کا کیا ثبو ت ہے؟ آپ اس کیس کو اقوام متحد ہ میں لے جائیں ‘ آپ اس کیس کو کسی بھی عالمی فورم پر کیوں نہیں لے کر جاتے ہیں؟ آپ نے اس کیس کے ضمن میں جہاں بھی آواز اُٹھائی ہے وہاں سے آپ کو کیا ریسپانس ملا ہے؟ آ پ سمجھوتہ ایکسپریس پر بات کیوں نہیں کرتے ہیں؟میرے سوال ابھی جاری تھے کہ اینکر نے معذرت کرتے ہوئے بریک لی اور اس کے بعد دوران بریک مجھے بتایا گیا کہ سیگمنٹ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور آپ کو ضرورت پڑنے پر دوبارہ بلایا جائے گا۔
Terrorism
میں اس کے بعد لاہور آگیا اور دو ماہ بعد ہونے والی اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ اس دوران میں قلم سے رشتہ کمزور ضرور ہوا لیکن ٹوٹا نہیں اور نہ ہی خبروں سے کبھی کوئی ناطہ ٹوٹا تھا۔ ایک دن خبر ملی کہ پٹھان کوٹ میں حملہ ہوا ہے۔ یہ حملہ کئی روز جاری رہا اور بھارتی سورما اپنے اہم ترین مقام کو کافی دنوں کے مقابلے کے بعد ہی بازیاب کروا سکے۔ حسب روایت بھار ت نے اس کاروائی کا الزام ہم پر ڈالااور ہمارے بکا ؤ میڈیا نے بھی نمک حلالی کا حق ادا کیا۔ ہمارے وزیر داخلہ نے اس معاملے پر اسٹینڈ لینے کی کوشش کی تو بڑے صاحب نے منع کر دیا’ اسکی وجہ مبصرین کے مطابق حکمرانوں کا ہمسائیہ ملک میں ذاتی تجارتی مفادات تھا۔ اسی دباؤ کے نتیجے میں گوجرانوالہ میں پٹھان کوٹ حملے کی ایف آئی آرتک کاٹ دی گئی ‘ یعنی بغیر تحقیق ‘ دباؤ کے نتیجے میں ہم نے قبول کر لیا کہ ہاں !ہم ہی دہشت گردی کی عالمی سپلائی کرتے ہیں۔
مجھ جیسے سر پھروں نے اس امر کی بے انتہا مذمت کی لیکن ہم بیچاروں کی سنی ہی نہیں کسی نے۔۔۔! پھر اس کے بعد چند ہی دن پہلے بھارت نے خود اعلان کیا ہے کہ پٹھان کوٹ کے حملے میں پاکستان کے کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ یہ اعلان بھارتی نیشنل ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل شرو کمار نے سرکاری طور پر کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے میں پاکستانی حکومت یا ایجنسی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس خبر کے بعد جہاں بھار ت کی دوغلی پالیسی سامنے آتی ہے کہ وہاں پر ماچس بم بھی چل جائے تو نام پاکستان پر آتا ہے اور یہی اس مرتبہ ہو اکہ تحقیق کئے بغیر ہی نام پاکستان کا لے لیا’ بلکہ پاکستانی حکام کی نا اہلی بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ انہوںنے بھارتی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے’ ایف آئی آر تک کا ٹ لی اور اس کے بعد اب خود منہ بھی چھپائے گی۔ لیکن بات یہاںپر ختم نہیں ہوتی ہے۔
خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی نظر ڈالنی چاہئے ۔ اس نے سب سے پہلے پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے ڈیم سازی کے متعلق ابہام پھیلائے ‘ غیر یقینی کی صورتحال پیدا کی اور اس کے بعدجب اس کو یقین ہوگیا کہ پاکستان اس موضو ع پر کمزور ہو چکا ہے تو انہوں نے سند ھ طاس کے معاہدے کی دھجیا ں بکھیر دی۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ راوی اگر آج خالی ہے اور کسی دوسرے دن میں وہ خطرنا ک حد تک بھر بھی سکتا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ نجی چینل میں بطور رپورٹر فرائض سر انجام دیتے ہوئے اس وقت ہم ڈی سی او صاحب کے کمرے میں پری مون سون کی رپورٹنگ کیلئے موجود تھے ۔ جب ڈی سی او نے متعلقہ عملے سے سوال کیا کہ آپ کے پاس سیلا ب کی صورت میں کیا پلاننگ ہے تو افسرا ن ایک دوسرے کی بغلیں جھانک رہے تھے ‘ اُن کے پاس نہ اس سادہ سوال کا کوئی جواب تھا اور نہ ہی اسکے بعد کے تکنیکی سوالات کا کوئی جواب تھا لیکن دوسر ی جانب بھارت اپنی طرف چھوٹے بڑے ڈیموں کی لائنیں لگا رہا ہے اور پاکستان کے اہم ترین شہروں میں پانی کی خطرناک حد تک کمی ہونا شروع ہو چکی ہے ۔ آپ حقائق کو سامنے رکھیں اور محض دو’ تین سال بعد کی ہولنا ک تصویر کا تصور کریں تو آ پ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور یہ وہ سوال ہے جس کیلئے مذہبی اور سیاسی قیادت دونوں کی سنجیدہ نہیں ہیں۔
Narender Modi
بھارتی وزیر اعظم نے حال ہی میں سعودی عرب’ ایران’ متحدہ عرب امارات اور قطر کے تاریخ ساز دورے کئے ہیں۔ متحدہ عرب امار ات میں بڑی تعداد میں ہندو آباد ہیں اور مودی کی سفارت کاری کے نتیجے میں وہاں پر اُن کو مندر بنانے کیلئے زمین مل گئی ہے ، سعودی عرب میں مودی کئی ایک ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اور قطر میں بھی مودی سرکاری طور پر مہمان ہیں۔ ان ممالک کے ساتھ نہ صرف بھارت نے برف کو پگھلایا ہے بلکہ یہاں سے تجارتی فوائد بھی حاصل کئے جا رہے ہیں۔
اب اگر صرف اور صرف ایران اور افغانستان کی جانب دیکھیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ یہ دونوں ممالک ہمارے ہمسائے ہیں لیکن ان کی بھارت سے گہری دوستی ہے ۔ افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور وہاں تک ایک سڑک بنانے کی بات بھی ہو رہی ہے تاکہ وہاں کی منڈی تک بھی رسائی حاصل کی جا سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے وہاں پاکستان دشمن عناصر کو بھی مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان میں سورش برپا کی جا سکے ۔ ایران کے ساتھ بھی بھارت کے گہرے تعلقات ہیں اور وہاں پر چاہ بہار میں گوادر کے مقابلے میں بھارت نے بھاری سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی ہے کیونکہ ہمارا دشمن جانتا ہے کہ اگر سی پیک کی تعمیر ہوجاتی ہے تو پھر پاکستان کی ترقی کو نئے پر لگ جائیں گے اور پاکستان کی ترقی نا گزیر ہو جائے گی ۔ وہ جانتے ہیں کہ سی پیک کا منصوبہ اگلے دس سالوں میں مکمل فعا ل ہونے کی دیرہے ‘پاکستان کے زرمبادلہ میں اضافہ ہونا شروع ہو جائیگا اور یہ خطے کا اہم ترین ملک بن جائے گا۔
کلبھوشن سنگھ کا اعترافی بیان سب کے سامنے ہے ‘ بھارت گوادر کی تباہی میں کس حد تک سنجید ہ ہے’ اس کیلئے کلبھوشن سنگھ کے اعترافی بیانا ت ہی کافی ہیں۔ بھار ت کا صرف ایک مقصد ہے کہ کسی طرح سے پاکستان کو کمزور کیا جائے اور اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کی جائے ۔ بھارت تو اپناکام کر رہا ہے لیکن کیا ہماری سیاسی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے ؟ اگر ہاں! تو پھر بھارت کے مقابلے میں ہماری کیا حکمت عملی ہے ۔۔۔؟