تحریر: چوہدری غلام غوث مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والی ایک صہیونی تنظیم نے جب پاکستان کے نظام کا مشاہدہ کیا تو جو رپورٹ اس تنظیم نے تیار کی اس کے مظابق ملک پاکستان کے بارے میں کہا گیا کہ اس ملک میں کرپشن انتہاکو پہنچ چکی ہیں انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے ہر چیز میں ملاوٹ ہو رہی ہے ،جھوٹ اور فریب عروج پر ہیں ،معاشرے میں سر عام لوٹ مار کا بازار گرم ہے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال اور بے جا اقربا پروری اپنا حق گر دانا جاتا ہے ،دھوکہ دہی چور بازاری کو بالکل جرم تصور نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ علاج معالجے پر مامور مسیحاڈاکو بن کر لوٹ رہے ہیں ،دیگر رپورٹ میں لکھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس ملک کو کھانے میں لگی ہوئی ہے مگر پھر بھی ابھی تک یہ ملک اور یہ کینسر زدہ معاشرہ قائم ہے ،اس کی دلچسپ وجہ بیان کی کہ اگر اس گئے گذرے دور میں بھی اگر کوئی فوت ہو جاتا ہے تو لوگ اکٹھے ہو کر اس کے دکھ میں شریک ہوتے ہیں اور سوگ مناتے ہیں کسی کی چوری ہو جاتی ہے تو اکٹھے ہو کر اس پر اظہار افسوس کرتے ہیں کسی کے ساتھ کوئی سنگین حادثہ پیش آجاتا ہے تو لوگ اس کی خبر گیری کرتے ہیں ،ناگہانی آفتوں پر مدد کیلئے امڈ آتے ہیں ،شادی بیاہ کے موقع پر لوگ اجتماعی شکل میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوجا تے ہیں اور اس سارے عمل کو انہوں نے مخصوص اصطلاح میں ؛سوشل سٹریٹ سسٹم ؛کا نام دیا اور لکھا کہ جس دن یہ عنصر اس قوم سے نکل گیا تو اِمعاشرے کو توڑنے کی ضرورت نہیں یہ خودبخود ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔
قارئیں کرام!پچھلے ایک ماہ میں ہونے والے دو واقعات نے اس معاشرے کی بے حسی ،لاپرواہی ،بے حمیتی،کج روی اور لاغر پن کو ایسے آشکار کیا ہے کہ رونگٹھے کھڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ساری گندگی سر بازار آگئی ور اس سے اُٹھنے والے تعفن سے گھٹن محسوس ہونے لگی ہے۔ایک واقعہ صوبائی دارلحکومت لاہور اور دوسرا واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا15 مئی کو لاہور کے علاقے ملت پارک میں ایک محنت کش فرمائش علی کا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا بھائی 11سالہ عادل فرمائش انتقال کر گیا محنت کش کے پاس اس کا کفن خریدنے کیلئے پیسے نہیں تھے بچے کے ننھیال والوں کا انتظار کیا گیا وہ آئے تو انہوں نے کفن خرید کر عادل فرمائش کو اسودہ خاک کیا یہ دل دہلادینے والا واقعہ صوبائی دارلحکومت میں پیش آیا جسے ہم ہمیشہ ہیرس اور استنبول سے مشابہت دیتے نہیں تھکتے ہیں جبکہ دوسرا واقعہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر اور پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد میں پیش آیا جہاں ایک غریب باپ نے کفن کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے نومولوڈ بیٹے کو بغیر کفن کے ننگا ہی دفن کر دیا کسی نے شک پرنے پر پولیس کو اطلاع کر دی غریب والد کو گرفتار کر لیا گیا۔
kafan
جب پولیس نے والد کی موجودگی میں قبر کشائی کی تو بچہ بغیر کفن کے ننگا ہی دفن تھا بعد میں پولیس نے کمسن زید کی لاش نکال کر کفن کا انتظام کر کے دوبارہ سپرد خاک کر دیا گویا غربت نے ننھے زید کو قبر میں جانے کے بعد بھی آرام سے سونے نہ دیا اور آڑے آگئی سُنا تھا کہ قبر میں جانے کے بعد تمام معاملات زندگی ختم ہو جاتے ہیں مگر کیا کریں اس غربت کا جس نے قبر میں جانے کے بعد بھی ننھے زید کا پیچھا نہ چھوڑا اسے وہاں بھی آسودہ خاک نہ ہونے دیا آخری آرامگاہ بھی بے آرامی کا باعث بن گئی مجھے یہ محسوص ہوا ہے کہ قبر سے نکالتے وقت ننھا زید شاید سوالیہ نظروں سے باپ سے کہہ رہا ہو کہ بابا زندگی میں تو غربت کے ہاتھوں تو مجھے اُجلے کپڑے پہنا کر میری خواہش پوری نہ کر سکا اب سماج کے کہنے پر مجھے قبر سے نکال کر میری یہ خواہش پوری کرنے پر کیوں بضد ہے مجھے اپنے اللہ کے حضور غربت کا عملی جامہ پہنے معاشرے کی بے حسی کی یہ عملی تصویر پیش کرنے سے کیوں روک رہا ہے۔
لاہور کے عادل اور فیصل آبد کے زید مائووں اور باپوں کے دل کتنے دُکھی ہونگے کیا دنیا کا کوئی پیمانہ اس کا اندازہ کر سکے گا ذرا سوچئے ہمارا معاشرہ کس نہج پر جارہا ہے اور اس کی انتہا کیا ہو گی یکے بعد دیگر ے ان واقعات نے معاشرے کے اہل درد احباب کے دل چھلنی کر دئیے ہیں 3جوں کو وفاقی حکومت اور بعد ازاں 13جون کو صوبہ پنجاب کا بجٹ پیش کیا گیا جہاں ماہر وزرائے خزانہ نے ترقیاتی کاموں کے ایسے ایسے قصیدے پڑھے کہ شاید سننے والوں کو سامنے جنت کے نظارے نظر آنے لگے اور دنیا بھر کی نعمتیں جھولی میں گرنے کا گمان ہونے لگاترقی کرنے کے وہ تمام دعوئے دہرائے گئے جو اکنامکس کی ڈکشنری میں درج ہیں ،جی ڈی پی،گروتھ ریٹ ،اے ڈی پی ،ڈیفسٹ،ٹیکس چھوٹ ،میکرو اکنامکس،وغیرہ وغیرہ اگر ماہر وزرائے خزانہ ان واقعات کے بعد اپنے اپنے بجٹ میں غریبوں کے مرنے والے بچوں کے کفن کے انتظامات کرنے کی مد میں کچھ رقم مختص کر دیتے ہیں تو کیا فرق پڑتا۔
Budget
اس معاشرے میں غریب آدمی کو بجٹ کے دلدادہ اعداد و شمار سے کیا غرض ہے اس کا پیٹ جس کو بھرنے کیلئے روٹی چاہیے اس کا جسم جس کو ڈھانپنے کیلئے کپڑا چاہیے اور اس کا مسکن جس میں رہنے کیلئے اسے چھت چاہیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے روزگار سمیت اپنے بچوں کیلئے صحت اور تعلیم چاہیے کیا اس بجٹ میں خاطر خواہ بندوبست کر لیا گیا ایک غریب کو آسودہ حال کرنے کیلئے کتنا مختصر اور سادہ زادِراہ چاہیے اللہ کرئے کہ حقیقی معنوں میں ہماری قوم کو حکمرانوں کا دھیان نصیب ہوجائے اور یہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے باہر نکل آئیں ۔جب ملک میں غربت کی وجہ سے لوگو ںکا یہ حال ہو کہ وہ اپنے لخت جگر وں کو کفن پہنانے سے عاجز آ جائیں تو روئیں اُس ترقی پراور ڈریں اللہ کے عذاب سے جس کی پکڑ بڑی شدید ہے پہاڑ میں جائے یہ ترقی اور اس کے یہ قلابے جو آپ آسمانوں تک ملا دیتے ہیں اس ترقی کے نوحے لکھیں اپنے سروں کو خاک آلودہ کر کے اس ترقی کا ماتم کریں اور اللہ سے معافی طلب کریں کہ جس ملک میں لوگوں کو اپنے بچے دفنانے کیلئے کفن نہ ملے اس کی ساری ترقی کہیں عذاب الہی کو دعوت نہ دے دے۔
اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ خبردار غربت کے خوف سے اپنی اولادوں کو قتل مت کرنا کیونکہ ان کے رزق کا ذمہ میرا ہے قارئین!غربت کے ہاتھوں قتل اور پھانسی لینے کے واقعات تو ہمارے معاشرے میں معمول بن چکے ہیں مگر غربت کے ہاتھوں کفن نہ دے پانے کا شاید یہ انوکھاواقعہ ہے ،ایسے واقعات سے نہ صرف انسانیت کانپ اٹھتی ہے بلکہ اللہ کا عرش بھی کانپ جاتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے دل ہیں کہ علم نہیں کس پتھر کے بنے ہوئے ہیں کہ نرم ہوتے دکھائی نہیں دیتے اسطرح کی ترقی اور اس کا یہ انوکھا معیار شاید آپ کو دنیا بھر میں نہ ملے جس میں اشرافیہ کو تو دنیا بھر کی آسائسیشیںاور آرام جبکہ غریبوں کیلئے دنیا بھر کے دکھ اور درد ملیں اللہ جانے ترقی کے یہ معیار کب بدلیں گے کب رحمت الہی جوش میں آئے گی کب آسمان ننھے عادل اور زید کے دُکھوں پر آنسو بہائے گا اور نہ جانے وہ بجٹ کب پیش ہو گا جس میں ان معصوموں کے کفن کے بندوبست کیلئے رقم مختص کی جائے گی یا پھر ہمیں روز حشر کا ہی انتظار رہے گا۔
حشر سے پہلے ہی اک حشر بپا ہے اک باپ کی سر بازار اتنی سی صداہے بن کفن کے لعل کو دفنانے لگا ہوں شاید کہ یہ نئی غربت کی ادا ہے