تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری بھارت میں گزشتہ تین برسوں کے دوران آر ایس ایس کے کارسیوک اور گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ کے زمانے میں گودھرا کیمپ میں ریاستی ایماء مسلمانوں کے قتل ِعام کے ذمہ دار نریندرا مودی جب سے مرکزی حکومت کے سربراہ بنے۔ جب بھارت کی متعدد یونیورسٹیوں میں تعلیم کی غرض سے آئے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے طالب علموں نے پاک بھارت کرکٹ میچوں میں پاکستانی کرکٹ کے کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر جب پاکستان زندہ باد اور پاکستانی پرچم لہرائے تو یونیورسٹیوں میں باہر سے آئے ہندو بلوائیوں نے ان کشمیری طالب علموں پر بری طرح سے زد وکوب کیا تھا ایسا ایک بار نہیں ہوا بار بار ہوا بارہا ہوا تھا جس کی تحقیقی وتفتیشی پوچھ گوچھ نہ تو کسی بھارتی ریاستی حکومت نے ضروری سمجھی اور نہ ہی مرکزی حکومت نے اس گھٹیا اور مکروہ غیر انسانی فعل کا کوئی نوٹس لیا۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جہاں بھارت میں 80 ملین اچھوت (دلت) ہندوغیر انسانی اور انسانی تعصب کی گری ہوئی سطح پر خوف ودہشت کی زندگی گزارنے پر مجبور و بے کس ہیں وہاں نہ عیسائی نڑاد بھارتی محفوظ ہیں نہ مسلمان اور اب تو حالت اس قدر دگرگوں اور سماجی افراتفری وانتشار کی سطح کو چھوچکے ہیں کہ ہندوتوا اور سنگھ پریوار کو نہ ماننے والوں کیلئے شائد مستقبل قریب میں کوئی جگہ نہ ہو مثلاً 30 مئی2016 کو عالمی نیوز ایجنسیوں نے نئی دہلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دنیا کو یہ علم ہوا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور نسلی جنونیت کے ناسور میں مبتلا ہندو بلوائیوں نے گزشتہ ہفتہ کے آ غاز میں نئی دہلی میں چار مختلف واقعات میں 7 افریقی طالب علموں کو شدید زخمی کردیا جبکہ خود بھارتی میڈیا کے مطابق ’چھترار پور گاؤ ں‘ میں یکے بعد دیگرے ان حملوں میں افریقی ممالک سے تعلیم کے حصول کی غرض سے دیش کی مختلف یونیورسٹیوں آنے والے ان طالب علموں کو بہت مارا پیٹا گیا۔
افریقی ممالک کے سیاہ فام طالب علموں کے ساتھ اپنی نوعیت کا یہ بہت ہی غیر انسانی قابل افسوس واقعہ تھا جس پر 42 افریقی ممالک کے سفیروں نے اپنی اپنی حکومتوں کو ان شرمناک واقعات کی تفصیلات پر مبنی مراسلے روانہ کردئیے ہیں۔ جن میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ وہ مزید طالب علموں کو بھارت نہ بھیجیں چونکہ بھارت میں نسلی مذہبی منافرت بے قابو ہوتی نظرآتی ہے سفیروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ نئی دہلی سمیت بھارت بھر کے شہروں سے افریقی طالب علموں کو واپس بلا لیا جائے یہاں پر یہ بھی یاد رہے گزشتہ ہفتہ کے آغاز میں نئی دہلی میں ایک مسلمان افریقی طالب علم کو ’ہندوتوا اور سنگھ پریوار ‘ کے ان جنونیوں نے سخت بہیمانہ تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا تھا۔
Racism in India
ان واقعات کے بعد نئی دہلی میں افریقی سفارت خانہ میں ’ افریقن ڈے ‘ کی تقریبات کا احتجاجاً بائیکاٹ کردیا گیا اور بھارتی حکومت سے سیاحوں کی حفاظت اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے نئی دہلی میں متعین جنوبی افریقہ کے سفیر نے شدید احتجاج میں کہا ہے کہ بھارت میں افریقی باشندوں پر ’ہندوتوا اور سنگھ پریوار ‘ کی جانب سے ہونے والے یہ حملے کھلی نسل پرستی کے مترادف ہیں۔
بھارتی حکومت تحقیقات کرئے افریقی سفیر نے بھارت سے اپنے شدید احتجاج میں اس نکتہ پر زور دیا کہ افریقی باشندوں کو تحفظ د یا جائے جہاں تک امریکا اور مغربی ممالک عام حالات میں جو اپنی مسلم دشمنی کی عادتوں کی بناء پر پاکستان یا دنیا کی دیگر مسلمان حکومتوں کے طر ز ِعمل کا تاریخی موازنہ بھارت سے کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ ’بھارت میں قائم جمہوریت عظیم جمہوریت ‘ ہے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا کوئی بھی جمہوریت اگر عظیم اور قابل ِ تقلید جمہوریت ‘ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ آجکل بھارت میں قائم ہے؟ ’جمہوریت کی تعریف‘ بلکہ بھارت میں قائم نہاد عظیم جمہوریت کی تعریف کرنے والوں اس وقت کوئی ندامت نہیں ہوتی۔
India
جب بھارت سے ایسی خبریں دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنتی ہیں یقینا ان کے پاس دنیا بھر کے امن پسند جمہوری معاشروں سے اٹھنے والے ان سوالیہ نکات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملے گا چونکہ عالمی سامراجیت کے قائل یہ ممالک باہم ایکا کیے ہوئے ہیں ان کی اپنی اپنی مفاداتی پالیسیاں ہیں جنوبی ایشیا بلکہ ایشیا میں عوامی جمہوریہ چین جو مستقبل کی ابھرتی ہوئی ایک ناقابل ِتسخیر عالمی طاقت ہے جس کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ باہم منسلک ہیں۔
اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد ایشیا میں یقینا ایک تاریخ ساز معاشی واقتصادی انقلاب رونما ہونے والا ہے۔ جس کی روک تھام کیلئے ماضی کی اپنی با ر بار کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی ان عالمی طاقتوں نے اس بار چین اور پاکستان کو نشانے پر رکھ کر بھارت کو ضرور ’قربانی کابکرا‘ بنا لیا ہے‘ اور نریندرا مودی نے مستقلاً نئی دہلی ہاتھ آئی ہوئی مرکزی حکومت سے دستبردار نہ ہونے کے لئے بھارت میں رہا سہا سیکولرسسٹم کا جنازہ تو تقریباً نکال ہی دیا اور دیش بھر کو ’ہندوتوا اور سنگھ پریوار ‘ کے عوامی مقبولیت کے نعرے کے جھانسے میں ا پنے پیچھے لگا لیا ہے جس کے نتائج خود بھارت کی سلامتی کے لئے کیا نکلتے ہیں یہ اب بھارتی عوام جانیں؟