مبہم سی اس کی یاد جھونکے کی طرح آتی ہے کبھی دیتی ہے سکون دل کو،کبھی آگ سی لگاتی ہے کچھ دھندلکوں میں چھپے ہیولے سے نظر آتے ہیں کبھی اشکوں میں چھپی صورت موتی کی طرح جھلملاتی ہے بہت دن گذر گئے ہیں، اس کو بھلا چکے ہم لیکن کبھی خیالوں کی کھڑکی بھی کھل ہی جاتی ہے عاشق ہوا زمانہ تو مغرور ہو گئے ہم اللہ یہ ادائے حسن بھی کیا کیا اثر دکھاتی ہے آنکھوں سے ہوئے اوجھل،دل سے پرے پرے بھی اس آئینے میں اب وہ صورت نظر نہیںآتی ہے