تحریر : ایچ آر مصور پتا نہیں کیوں ٹریکٹر ٹرالی کا نام آتے ہی ذہن میں خواجہ آصف اور شیریں مزاری خود بخود آجاتے ہیں حالانکہ ہم نے کبھی بھی خواجہ آصف یا شیریں مزاری میں سے کسی کو بھی ٹریکٹر ٹرالی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ جب سے مقدس ایوان میںٹریکٹر ٹرالی والا ”مشہور زنانہ ”واقعہ رونما ہوا ہے اسی دن سے ذہن سے اتارنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن واقعہ ہے کہ ذہن سے اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ واقعی کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو تادیر ذہن پر نقش رہتے ہی۔ بہر حال ہم اس پر بات نہیں کرتے کہ خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کیوں کہا ؟ کہنا چاہیے تھا یا نہیں کہنا چاہیے تھا ؟ خواتین کی عزت کرنی چاہیے یا نہیں ؟ کرنی چاہیے تو کون سی خواتین کی اور کیسے کرنی چاہیے ۔۔۔۔ نہ اس پر بحث کرنا چاہتے ہیں کہ عابد شیر علی نے یہ کیوں کہا کہ ٹریکٹر ٹریکٹر ہوتا اور ٹرالی ٹرالی ۔وایسے کیا ہی عجیب بات کر ڈالی عابد شیر علی نے ۔ کیا اس سے پہلے کسی کو یہ پتہ نہیں تھا کیا کہ ٹریکٹر ٹرالی نہیں ہوتا اور ٹرالی ٹریکٹرنہیں ہوتا؟۔
یہ سب نکات ہمارے زیر بحث نہیں ہم تو ہمیشہ ایک نئی بحث چھیڑتے ہیں۔ واقعے پر غور کریں تو یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ ضرور خواجہ آصف صاحب نے موصوفہ کا بغور جائزہ لیا ہوگا اور کئی دنوں سے لے رہے ہوںگے ۔اس دوران دل ہی دل میںان کے لیے محبت بھرے جذبات کے ساتھ یہ نام تجویز کیا ہوگا پھر کئی ایک نجی اجلاسوں اور یار دوستوں کے سامنے اس کا تذکرہ بھی کیا ہوگا اور ان سے رائے لی ہوگی ۔ شاید ٹی او آر بھی بنا ئے ہوں گے اور پھر اس کے اعلان کے لیے کسی خاص موقعے کا انتظار رہا ہوگا ۔ کئی ایک مواقع ایسے آئے ہوں گے کہ زبان پر نام تو آیا ہوگا لیکن مصلحت کے تحت اظہار نہیں کر پائے ہوں گے۔
اب پارلیمنٹ میں ان کو موقع مل گیا تو انہوں نے بلا تردد برملا اظہار کردیا۔ یقین جانیں ان کے لہجے میں اتنی روانی تھی کہ جیسے وہ کئی دن سے تیاری کرکے تشریف لائے ہوں اور ٹھان لی ہو کہ آج جس نے بھی تقریر کے دوران ہلڑ بازی کی اسی کو ٹریکٹر ٹرالی سے نواز دوں گا۔۔۔۔ زہے نصیب کیا خوش قسمتی تھی خواجہ صاحب کی موصوفہ نے ہی اس فرض کو سرانجام دیا اور خواجہ صاحب نے مارے خوشی کے آئو دیکھا نہ تائو اپنی ٹرالی کا رخ اسی طرف موڑ دیا القاب و آداب سے نوازنے کے ساتھ ساتھ مردانہ آواز بند کرنے کی بھی اسپیکر سے فرمائش کی لیکن مردوں میںسے تو کسی نے بھی دل پے نہیں لیا لیکن موصوفہ نے دل کا معاملہ دل پر ہی لے لیا۔ دیکھیں اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ خواجہ آصف نے وضاحت کرلی کہ میں کسی مرد سے مخاطب ہوں عورت سے نہیں۔۔
Khawaja Asif
لیکن اللہ بخشے ان خواتین کو اور ان کا درد محسوس کرنے والوں کو جنہوں نے بے چارے کی وہ کلاس لی وہ کلاس لی کہ انہیں معافی مانگنی پڑگئی۔۔۔۔ اب موصوفہ کو یہ معافی بھی قبول نہیں وہ پھر مطالبہ کررہی ہیں کہ میرا نام لیکر معافی مانگی جائے اب انہیں کون سمجھائے کہ محترمہ خواجہ صاحب نے فرط جذبات محبت میں آپ کو ٹریکٹر ٹرالی کے نام سے نوازا ہے اور نوازا بھی اس لیے ہے کہ وہ نواز کا بندہ ہے۔۔۔۔۔ یہ الگ بات کہ وہ شریف ہے۔۔۔۔ اب نواز کا بندہ نوازے گا نہیں تو کیا کرے گا اگر آپ کو یہ نام اتنا ہی پسند آیا ہے اور ان کی زبانی بار بار سننا چاہتی ہیں تو اسمبلی کی کارروائی کی ریکارڈنگ بار بار چلالیا کریں ۔اب وہ بے چارہ ایک بار پھر آپ کے لیے توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوجائے ۔۔۔۔۔۔تھوڑا سا رحم کریں کوئی جرم تو نہیں کیاہے صرف اظہار ہی کیا ہے ۔۔۔۔ عجیب ہے بندے کو آزمائش میں ڈالے بغیرلوگوں کو یقین کیوں نہیں آتا۔۔۔۔۔
اب محترمہ چاہتی ہیں کہ خواجہ آصف کہہ دیںکہ میں محترمہ ٹریکٹر ٹرالی سے معافی کا خواستگار ہوں امید ہے یا نہیں ہے لیکن وہ مجھے کم از کم معاف کردیں گی ۔۔۔۔۔۔ بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے مجھے دراصل بات یہ کرنی تھی کہ خواجہ صاحب نے موصوفہ کی آواز کا بھی بغور جائزہ لیا ہوگا اور اس بارے میں بھی سوچا ہوگا کہ کسی مناسب موقع پر اس کی تعریف کرہی ڈالوں بلکہ گل پاشی کرلوں۔ بس میرے خیال میں انہوں نے مقام کا انتخاب غلط کیا اس لیے تنقید کا نشانہ بنے اگر کسی عوامی جلسے میں ایسی بات آتی تو کوئی انگلی نہیںاٹھاتا۔
پارلیمنٹ جیسے مقدس ایوان میں نازیبا گفتگو سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ حالانکہ سوشل میڈیا پرنواز شریف کو گنجا شریف ،بینظیر کو پیلی ٹیکسی، بلاول کو بلو رانی، عمران خان کو یو ٹرن،چودھری نثار کو مسٹر بین، شہباز شریف کو شوباز شریف ،خواجہ آصف کو کھسرا آصف ، مولانا فضل الرحمن کے لیے ڈیزل جیسے نام مشہور ہیں اس پر تو آج تک کسی کے دل میں اتنا درد نہیں اٹھا جتنا شیریں مزاری کے لیے دنیا رورہی ہے ۔ بہر حال خواجہ آصف اور عابد شیر علی کو شیریں مزاری سے معافی مانگنی چاہیے ایک مرد کو خواتین کا مذاق اڑانا زیب نہیں دیتا ۔ بس مرد ہونا شرط ہے۔