تحریر : محمد دائود شبیر انٹرمیڈیٹ کے پرچے دے کر فارغ ہوا تھا ۔ سوچا تھا اتنے اچھے نہ سہی تو کم از کم اتنے ضرور آجائیں گے کہ من کو سکون مل سکے ۔ اس کے بعد انٹری ٹیسٹ کی تیاری شروع کردی ۔ تین ماہ کب گزر گے پتا بھی نہ چلا ۔ جیسے ہوا کا گولا آیا اور تیزی سے چلا گیا۔رزلٹ آیا تو امیدوں کی جو مالااپنے دماغ میں بنائے بیٹھا تھا وہ ٹوٹ گئی ۔یوں لگتا تھا جیسے زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہو۔ چپ چپ رہنا اپنے مطلب سے کا ، دل کیا تو بول پڑا ورنہ خاموشی ہی کو اپنی سہیلی بنا چکا تھا۔
نا امیدی نے ڈیرے ڈال لیئے تھے ۔” مایوسی کفر ہے ”والی حدیث دماغ میں آتی تھی اور نکل جاتی تھی ۔ ایک دن کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ لگتا ہے اللہ ناراض ہے ۔ اللہ کو منانا چاہیے ۔ یہ نہ ہو کہ مسئلے کشیدہ ہوتے جائیں ۔ چونکہ میں بندہ تھا ۔مطلبی تو ہونا ہی تھا ۔اللہ کا بندہ تھا ۔ اللہ کی نصارت پر بھی یقین تھا کیونکہ وہ قرآن میں اپنے آپ کو”نصیر ” کہتا ہے۔
ابھی یہ باتیں دماغ میں تازہ ہوا کی طرح چل رہی تھیں کہ والد صاحب کمرے میں آئے اور کہنے لگے ”دائودتمہارے لیے کوئی فون ہے ۔یہ لو بات کرو” ۔میں نے موبائل پکڑا تو حال و احوال ایک انجان بندے نے دریافت کیا حیرانی ہوئی کہ کون ہے ۔ اس نے کہا ” بیٹا آپ مر ی جانا چاہتے ہیں جلدی بتائیں ٹائم نہیں ہے ”اس کی یہ بات سن کر میں مسکرایا بھی اور حیران بھی ہوا کہ یہ کون ہے۔ جو مر لیئے جا رہا ہے۔
Information
مزید معلومات لینے پر پتا چلا کہ گجرانوالہ بورڈ نے 15 بچے چنے جن میں میرا نام پندرھویں نمبر پر آگیا ہے اور ہمیں مری لے جایا جا رہا ہے اور پانچ سال کے لیئے وظیفہ لگ گیا ۔ وہ دن اور آج کا دن ایسی پکی امیدیں لگائے بیٹھا ہوں رب سے کہ جو ہو رہا ہے بہتر ہو رہا ہے ۔ جو ہو گا بہتر ہوگا ۔ کیونکہ وہ رب ہے اور وہی ”سب ” ہے۔