تحریر : سید انور محمود ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ اور ممتاز سماجی کارکن محترم عبدالستار ایدھی کی عمر 90 برس سے زیادہ ہے اور آجکل وہ بہت علیل ہیں۔ موت برحق ہے اور شاید جناب عبدالستار ایدھی کو اس بات پر کچھ زیادہ ہی یقین ہے۔9 جون کو کراچی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے ہسپتال میں عبدالستار ایدھی سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کی جانب سے انہیں بیرون ملک علاج کے لیے ملک سے باہر لے کر جانا چاہتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی نے بیرون ملک علاج کروانے کی آصف زرداری کی پیشکش مسترد کر دی۔عبدالستار ایدھی نے جواب دیا کہ وہ پاکستان ہی میں رہنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کروائیں گے۔
دو دن بعد آصف علی زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے بھی میٹھادر میں قائم ایدھی سینٹر میں ایدھی صاحب کی تیمارداری کی اور انہوں نے بھی ایدھی صاحب سے اپنے والد کی پیشکش کو دہرایا کہ وہ دنیا میں جہاں چاہیں، انہیں علاج کیلئے وہیں بھیجا جاسکتا ہے۔ جواب میں ایدھی صاحب نے آصفہ بھٹو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، ایدھی قبرستان کیلئے زمین فراہم کرنے کی درخواست کی جس پر آصفہ بھٹو نے سندھ حکومت سے بات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے والد کے گردے ناکارہ ہو گئے ہیں اور وہ ڈایالسِس پر ہیں۔ فیصل کا کہنا ہے کہ پہلے اُن کا ڈایالسِس ہفتے میں دو مرتبہ ہوتا تھا لیکن اب ہفتے میں تین بار انھیں ڈایالسِس کروانا پڑتا ہے۔جناب عبدالستار ایدھی کراچی میں ایس آئی یو ٹی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، یہ ہسپتال بھی ایک فلاحی تنظیم کے تحت چلایا جاتا ہے، جس کے سربراہ محترم ڈاکٹر ادیب رضوی ہیں۔90 سالہ ایدھی صاحب جو اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ان کی صحتیابی کے لیے پوری دنیا میں دعا کی جارہی ہے لیکن کچھ بد بخت انسانیت کے دشمن سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ان کو ایدھی صاحب سے بنیادی تکلیف یہ ہے کہ لوگ آنکھیں بند کرکےایک ایسے شخص کو دل کھول کرعطیات دیتے ہیں جو مذہب، مسلک، زبان و نسل کا امتیاز تک نہیں جانتا اور گذشتہ 65 سال سے انسانیت کی خدمت کررہا ہے۔
Abdul Sattar Edhi
ایدھی صاحب چونکہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، لہذا اسلام سے انکی واقفیت بھی واجبی سی ہے۔ اصل میں تو ایدھی صاحب کا مذہب انسانیت ہے اورانہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی بھلائی میں گذار دی ہے، ایدھی صاحب نے جس کے لیے جو بھی کچھ کیا بغیر مذہبی تفریق کے کیا، جس کی ایک مثال وہ بھارتی بچی گیتاہے جو 13 برس ایدھی سینٹر میں محترمہ بلقیس ایدھی کے زیر نگرانی رہی اور جس کا اعتراف بھارتی حکومت نے کھل کر کیا اور بھارتی حکومت کی جانب سے ایدھی فاونڈیشن کو پانچ کروڑ بھارتی روپے دینے کا اعلان کیا ، فیصل ایدھی نے بھارتی حکومت کی اس پیشکش کو شکریہ کے ساتھ قبول نہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر واضح کیا کہ ایدھی فاونڈیشن صرف پاکستانی عوام سے مدد لیتی ہے۔
افسوس 2011 میں ایدھی صاحب کے خلاف مفتی محمد نعیم صاحب نے ایک محاذ قائم کر لیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کیلئے عبدالستار ایدھی کی دعا اور حمایت گمراہی اور شریعت و آئین کیخلاف ہے، عبدالستار ایدھی میڈیا پر آ کر اس معاملے اور قادیانیوں کیلئے کی جانے والی دعاؤوں اور اپنے نمائندے کے الفاظ پر اپنی پوزیشن واضح کرے ورنہ ان کو بھی دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد سمجھا جائیگا۔ گو کہ یہ بات تین سال پرانی ہے اور لوگ اس کو بھول چکے تھے لیکن مفتی نعیم صاحب کے حمایت یافتہ کچھ انسانیت دشمن سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ایدھی صاحب سے ایک صحافی نے پوچھا آپ گورنمنٹ سے، سیاستدانوں سے، یا باہر کے ملکوں سے امداد کیوں نہیں لیتے؟ ایدھی صاحب نے جواب دیا ، ‘‘کبھی ضرورت ہی نہیں پیش آئی’’، اور اگر کبھی مجھے زیادہ امداد چاہیے ہو، مثلا ، سیلاب ، زلزلہ جیسی قدرتی آفت کے وقت ، تو میں ملک کے کسی بھی شہرکی کسی بھی سڑک ، فٹ پاتھ،یا چوک میں چادر بچھا کر بیٹھ جاتا ہوں اور چند گھنٹوں میں اس ملک کے لوگ مجھے کروڑوں روپے دے دیتے ہیں
ایدھی صاحب کے مخالفین کو یہ ہی برداشت نہیں ہوتا کیونکہ اس سے ان کی دوکانداری پر اثر پڑتا ہے۔معروف قلمکار جناب وجاہت مسعود اپنے ایک مضمون ’’مولانا شیرانی کی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات‘‘، میں لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت قانون سازوں کے سامنے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لاوارث بچوں کے لیے جن کے ماں باپ نامعلوم ہیں، شناختی کارڈ کیسے جاری کیے جائیں۔ پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری نے تجویز پیش کی تھی کہ ایسے تمام بچوں کے باپ کے طور پر ان کا نام لکھ دیا جائے۔ عبدالستار ایدھی صاحب بھی ایسی ہی پیشکش کر چکے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس قانون سازی میں اسلامی نظریاتی کونسل رکاوٹ ڈال رہی ہے اور ان کمزور، غریب اور لاوارث بچوں کے لیے قانونی شناخت کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے‘‘۔
Abdul Sattar Edhi
ڈاکٹر رہیس صمدانی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’عبدالستار ایدھی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس کی زندگی انسانیت کی خدمت سے عبارت نظر آتی ہے۔ عبد الستار ایدھی کو دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ اپنی ماں کی خدمت کے نتیجے میں ملا، اگر ایدھی صاحب نے اپنی ماں کی خدمت نہ کی ہوتی تو شاید آج وہ اس مقام و مرتبہ پر نہ ہوتے، یہ مرتبہ، یہ اعزاز، یہ مقام ان کو اپنی ماں کی خدمت کے عوض نصیب ہوا ہے اور اس اعزاز و مرتبے کو پروان چڑھانے میں بھی ایک عورت کا عمل دخل رہا اور وہ نیک صفت، وفا شعار عورت ہے بلقیس ایدھی، عبد الستار ایدھی سے شادی سے قبل بلقیس ایدھی نرس کے پیشے سے تعلق رکھتی تھیں اور عبد الستار ایدھی کی ڈسپنسری میں خدمات انجام دیا کرتی تھی، ایدھی صاحب نے 1965 میں بلقیس ایدھی سے شادی کی، شادی کے بعد سے آج تک بلقیس ایدھی نے اپنے شوہر کا ایسا ساتھ نبھایا کہ جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ بلقیس ایدھی قدم قدم پر ایدھی صاحب کے ساتھ رہیں ، ایدھی صاحب کو اس مقام، مرتبہ ا ور منزل پر پہنچانے میں بلقیس ایدھی کا کردار قابل رشک ہے‘‘۔
پورا پاکستان عبدالستارایدھی سے محبت کرتا ہے اور انکی عزت کرتا ہے۔ جمعہ 17 جون 2016 کو اس محبت اور عزت میں اس وقت اور اضافہ ہوا جب پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے عبدالستارایدھی کوخراج تحسین پیش کرنےکی تقریب منعقد ہوئی۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے اپنے خطاب میں ایدھی صاحب کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ لاہور میں منعقدہ تقریب میں شہریار خان نے کہا ہے کہ ایدھی صاحب کو نوبل انعام ملنا چاہئے، انسانیت کےلیے اُن کی بڑی خدمات ہیں۔تقریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے درمیان طے پائے معاہدہ کی رو سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم دورہ انگلینڈ کے موقع پر ایدھی فاؤنڈیشن کا لوگو شرٹ پر لگا کر کھیلے گی۔ شہریار خان نے اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان سپر لیگ کی جانب سے ایدھی فاؤنڈیشن کے لیے پانچ، پانچ لاکھ روپے کے عطیے کا اعلان بھی کیا۔
دنیا ایدھی صاحب کو جانتی ہے، اور ہم میں سے جو خوش قسمت ہیں وہ اُن سے ملنے کا شرف بھی حاصل کرچکے ہونگے۔ عبدالستار ایدھی، موجودہ صدی میں خدمت خلق کی اعلٰی ترین مثال، انسانیت کا ایسا سچا بےلوث خدمت گار جو کہ واقعی اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک بہت ہی محترم دوست ڈاکٹر جمیل اصغر جامی نے جناب ایدھی کے آصف زرداری کی بیرون ملک علاج کرانے کی پیشکش کو مسترد کرنے اور پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے علاج کرانے کا ارادہ ظاہر کرنے پر اپنے جذبات کا اظہار اپنےاشعار میں کچھ یوں کیا ہے:۔۔ آقا تو چاہتے ہیں کہ گلشن ہی بیچ دیں مالی کا من چمن میں، تن بھی چمن میں ہے رہبر کو چھینک آئی تو لندن چلا گیا ایدھی بہت علیل ہے لیکن وطن میں ہے
اللہ تعالی ایدھی صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور انسانیت کےلیے ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کا ان کواجرعظیم عطا فرمائے، آمین۔