میرے خوں میں ڈبوئے جسم و جاں کو دھو نہیں سکتے میرے قاتل میری نظروں سے اوجھل ہو نہیں سکتے زمیں پر آگ اور گندھک کی بارش ہونے والی ہے زمیں پر رہنے والے چین سے اب سو نہیں سکتے سبھی دکھ سکھ کے موسم اب میری جاں مل کے کاٹیں گے بڑی مشکل سے پایا ہے تجھے اب کھو نہیں سکتے وہ جن کے دم سے ہے پہچان دنیا میں محبت کی کبھی بھی نفرتوں کا بِیج دل میں بو نہیں سکتے ہمیں حالات کی گردش نے پتھر کر دیا ساحل ہم ایسے لوگ ہیں جو ایک پل بھی رو نہیں سکتے