تحریر: اسد زمان ملک آزادکشمیر الیکشن 2016 ہونے جا رہا ہے۔ 21 جولائی سیاسی معرکہ کا دن مقرر ہے۔ہر طرف گہماگہمی ہے آزادکشمیر بھر میں سیاسی منڈیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔کوئی ایک جماعت سے دوسری جماعت میں کوچ کر رہا اور کوئی ٹکٹ نہ ملنے پر علم بغاوت کر رہا ہے۔مگر راقم کا مقصد ان سیاسی بھیڑیوں کے بارے تمہید باندھنا نہیں بلکہ میرا مقصد قارئین سمیت ارباب اختیار کی توجہ ایک اہم معاملہ کی طرف مبذول کروانا ہے، کشمیر کے حسن یعنی کشمیر کے جنگلات کو آگ لگا کر خاکستر کیا جا رہا ہے۔ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ریاست بھر بالخصوص ضلع کوٹلی کے اطراف کے جنگلوں میں آتش کا سماں برپا ہے۔جہاں مہنگی و قیمتی لکڑی جلائی جا رہی ہے اور کہیں غیرقانونی طریقے سے لکڑی کاٹی جا رہی ہے۔مگر یہ سب ماجرہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آخر کون ہیں یہ لوگ جو ہماری دھرتی ماں کشمیر کی خوبصورتی کو ختم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
ایسے کونسے عناصر ہیں جنکی وجہ سے پورے شہر کا ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔؟؟؟ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کا ایک محصوص بجٹ محکمہ جنگلات پر صرف ہوتا ہے۔ اور ایک عجیب وغریب قسم کے وزیر جنگلات بھی پائے جاتے ہیں۔جن کاکام صرف پیسے ہڑپ کرنا اور سال میں ایک بار مجاور وزیراعظم کو ساتھ رکھ کر کسی بھی سرکاری عمارت کے صحن میں ایک پودے اور ہاتھ میں پکڑے ایک عدد بیلچے کے ساتھ تصویر کھینچوانا اور شجرکاری مہم(برائے نام) کا آغاز کرنا ہے۔کوٹلی کے گردونواح کے جنگلات گزشتہ ایک مہینے سے آگ لگی ہوئی ہے کبھی ساردہ ،سہرمنڈی،ناڑ،کبھی کھوئیرٹہ جنگل کا ایسا کوئی علاقہ نہیں چھوڑا جہاں ان سماج دشمنوں نے آگ لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو۔
Forest Fire
یقین جانیئے کہ جب بیچ شہر سے آپ اطراف میں نگاہ ڈالیں تو آپ کو دھوئیں اور آگ کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا۔اسی آگ اور دھوئیں سے فضاء میں آلودگی اور ہر طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔کوٹلی کے انہی جنگلات میں جانور،چرند،پرندوں کا ڈھیرہ جما ہوتا تھا۔درختوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ ہی جنگلوں کی رونق ہوتے ہیں۔مگر حکومت کی اس نااہلی اور عدم توجہ سے پرندے ہجرت کرنے کو مجبور ہو چکے ہیں۔اندازہ کیجئے جس حکومت سے پرندے تک نہ محفوظ نہ رہ سکیں وہ عوام کو کیا خاک تخفط دے گی۔کچھ روز قبل جنگلات میں آگ کی روک تھام کے سلسلے میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائینسز اینڈانفارمیشن ٹیکنالوجی کوٹلی(UMSIT) کے طلباء کا وفد اسسٹنٹ کمشنر کوٹلی کے پاس گیاسوائے باتوں کی حد تک عمل کروانے کے انہیں روائیتی انداز میں خوش کر کے واپس بھیج دیا گیا۔حکومتی نمائندے سے جب اس حوالے سے گلہ کیا گیا تو جواب ملا کہ آگ تو لگتی رہتی ہے۔آجکل رمضان المبارک کے مہینے کے ساتھ ساتھ الیکشن کا بگل بھی بج چکا ہے۔ہر طرف سیاسی دکانوں کے افتتاح ہو رہے ہیں ۔کہیں چہرے بدل رہیں ہیں اور کہیں پرانے چہرے نئے روپ میں سیاسی انٹری ڈال رہے۔
۔مگر افسوس صد افسوس ان محترم امیدواران میں سے کسی ایک کو بھی یہ اخلاقی جرات نہ ہو سکی کہ وہ آگ کی روک تھام کہ لیے ایک اخباری بیان سے ہی مزمت کر دیں۔کوٹلی کی سیاست میں نئے منچلے سیاستدانوں کو کیا کہوں جب کوٹلی میں 25 سالوں سے راج کرنے والے کوٹلی کے”ماموں” ملک نواز صاحب جو کہ اس بار بھی متوقع کامیاب امیدوار ہیں وہ بھی اس ایشوء پر لب کشائی کرتے کہیں دکھائی نہیں دیے۔نہ ہی الیکشن امیدواران نے اپنے منشور میں جنگلات کی حفاظت کے لیے کوئی واضح حکمت عملی دے سکے ہیں۔
Forest Protectio
جنگلات کی حفاظت ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ہمارا المیہ ہمیشہ سے یہ رہا کہ ہم نے کبھی صحیح اورغلط میں پہچان کرنے کی ہمت نہیں کی۔ جب جنگل کی حفاظت کرنے والا گارڈ ،آگ بجھانے والا فائیر فائیٹر اور عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والے حکمران ہی جنگل میں آگ لگانے،قیمتی لکڑی سمگل کرنے میں مصروف عمل ہوں گے تو عوام کس کے سامنے اپنا سوال رکھے۔یہاں بھڑکتی آگ کشمیر کی خوبصورتی جلائے ہوے ہے اور عیاش حکمران الیکشن اور بلیک منی اکھٹے کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ۔۔۔۔۔ہم عوام ہمارا بس اتنا سا ہے پیغام ۔۔۔میرا کشمیر جل رہا ہے؟؟؟۔