تحریر: سید انور محمود صرف ایک ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا، اب بھی ہے، نام ہے ’’پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک‘‘ لیکن اس کو عام طور ’’پی ٹی وی‘‘ کہا جاتا ہے۔پی ٹی وی نے اپنی نشریات کا آغاز 26 نومبر 1964ء کو لاہور کے اسٹیشن سے کیا۔ پی ٹی وی پر صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا، اس سے خبریں بھی نشر ہوتی تھیں اور ڈرامے بھی دکھائے جاتے تھے، پی ٹی وی کے ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بڑئے شوق سے دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی کے پروگرام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاسکتے ہیں، چونکہ پی ٹی وی ایک سرکاری ادارہ ہے لہذا بغیر نفع نقصان کی فکرکئے اس کی نشریات جاری رہیں۔ سرکاری اداروں میں سرکار کی پالیسی چلتی ہے لہذا پی ٹی وی عوام کو وہی کچھ دکھاتا ہے جو سرکار چاہتی ہے اور یہ ہی عوام کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ پی ٹی وی جہاں حکومت وقت کی ترجمانی کرتا ہے وہیں قوم کی اخلاقی اور نظریاتی تربیت کا حق بھی بھرپورطریقے سے ادا کرتا رہا ہے۔
جنگ گروپ نے 2002ء میں جیو ٹی وی چینل کے نام سے پاکستان میں اپنی نشریات کا آغاز کیا بعد میں اس چینل میں توسیع ہوئی اور اس کے مزید چینل کھلے۔ 2002ءکے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 80 سے بھی زیادہ نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتی ہیں، تاہم ملک کی علاقائی زبانوں (پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، سرائیکی وغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ جن میں خبریں، صحت ، تعلیم اور تفریح کے بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پی ٹی وی ورلڈ پاکستان کا پہلا انگریزی چینل ہے۔جیسے جیسے چینلز کی تعداد بڑھی تو مقابلے کا رجحان بھی بڑھا اور زیادہ کمائی کیسے کی جائے اس کی فکر ہوئی، چینلز کے مالکان جو دراصل سیٹھ ہیں ان کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ عوام کو اچھی تفریح مہیا کی جائے یا انکو حقایق سے آگاہ کیا جائے بلکہ سیٹھوں کی ساری دلچسپی اس میں ہے کہ کس طرح عوامی توجہ حاصل ہو تاکہ ریٹنگ بڑھے جو اشتہارات اور کمائی میں اضافے کا سبب ہے۔
Talk Shows
اس ریٹنگ کی چاہت میں چینلز کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔پاکستان میں تمام نیوز چینل روزانہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک ٹاک شو کے نام پر سیاسی مجرئے کرتے ہیں اور ان ٹاک شوز میں چھانٹ چھانٹ کر بدتمیزوں کو جمع کیا جاتا ہے جو آپس میں ایک دوسرئے کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں، گذشتہ دنوں ایک نام نہاد مذہبی رہنما تو اس قدر بے قابو ہوگئے کہ انہوں نے اپنی مدمقابل خاتون کو وہ کچھ کہہ دیا جو شاید ایک شریف انسان کبھی بھی نہ کہہ پائے، بہت شور ہوا لیکن جناب اس ٹی وی چینل کے سیٹھ کی تو عید ہوگئی کیونکہ پروگرام میں مذہبی رہنما کےبےہودہ پن کے بعد یقیناً چینل کی ریٹنگ بڑھی ہوگی اور سیٹھ کی آمدنی۔
ٹاک شوز میں آنے والے سیاستدانوں میں کبھی کبھی ایک شریف سیاستدان بھی مل جاتا ہے، ایسے ہی سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جس کے ساتھ شرافت کا تمغہ لگا ہوتا ہے اور جسے ہم رمضان شریف کہہ کر پکارتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل جیو کے پروگرام ’عالم آن لائن‘ سے عوام میں بے حد مقبولیت پانے والے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو میڈیا کے حلقوں میں رمضان نشریات کا موجد کہا جاتا ہے۔ 2014ء میں معمولی گیمز، عجیب و غریب حرکات و سکنات اور نہایت آسان سوالات کے جوابات دینے پر موبائل فونز، اے سی، جینریٹرز، موٹر سائیکل اور گاڑی جیسے انعامات دینے کا سلسلہ عامر لیاقت کے’انعام گھر‘ نامی پروگرام سے شروع ہوا اور اسے رمضان کی نشریات میں بھی جاری رکھا گیا۔ اس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دیگر چینلز نے بھی اسی طرز کے پروگرامز اور نشریات کا آغاز کیا اور اس برس نامور اداکار اور میزبان فہد مصطفیٰ کا پروگرام ’جیتو پاکستان‘ سب سے زیادہ انعامات دے کر ریٹنگز کی دوڑ میں آگے نظر آرہا ہے۔ تاہم ان پروگرامز میں دکھایا جانے والا مواد عوامی حلقوں میں شدت سے زیر بحث ہے۔
رمضان نشریات کے نام پر رمضان کے مقدس ماہ میں ٹی وی چینلز سحری افطاری میں سٹیڈیم نما سٹوڈیو محفلیں سجاتے ہیں۔ رمضان نشریات میں انتہائی سنجیدہ ماحول ہونا چاہئے مگر یہاں انتہائی سنجیدہ سوالات انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں کئے جاتے ہیں، درست جواب دینے والوں پر انتہائی مضحکہ خیز انداز میں انعامات اچھال دیئے جاتے ہیں تاکہ محفل مزاحیہ بن سکے۔ ان رمضان نشریات کے اینکرز میں بعض نام نہاد دینی سکالرایسے بھی ہیں جن کو مشرف دور سے پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا ، جن کے پاس نا کوئی سند ہے اور نا ہی علماءانہیں اپنے میں سے مانتے یا جانتے ہیں۔ اسی طرح ان اینکروں میں کچھ ایسے گائیک جن کی زندگیاں گانے بجانے میں گزری ہیں وہ بھی رمضان نشریات میں قوم کو دین سے روشناس کراتے نظر آتے ہیں۔ ان چینلز کے سیٹھوں کا اگر بس چلے تو یہ مذہب کے نام پر سال کے بارہ ماہ یہ پروگرام جاری رکھیں۔ رمضان نشریات کی اہم بات یہ ہے کہ اینکر کے کپڑوں سے لے کر مولوی صاحب کی جانب سے کی جانے والی دعایں تک سب سپانسرڈ ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو سحر اور افطار کی دعا ہوتی ہے وہ بھی سپانسرڈ ہوتی ہے۔ پچھلے سال بھی ہر چھوٹے بڑے چینل نے رمضان کو خوب بیچا ۔لاکھوں لگا کر کروڑوں کمائے۔ اس سال بھی رمضان کی تیاری کمرشلزم کی بنیاد پر ہی کی گئی ہے۔ پچھلے سال کس نے اس پاک ماہ میں کتنا کمایا وہ آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ ایک مشہوراینکر کے مطابق رمضان دو ہزار پندرہ میں جیو اور اے آر وائی نے صرف ایک ماہ میں چالیس چالیس کروڑ کا بزنس کیا، جبکہ باقی چینلز کا منافع بھی کرڑوں میں ہی ہے۔
Ramzan Shows
کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کے استاد پروفیسر انعام اللہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں ٹی وی چینل کی ابتدا کے بعد رمضان کے مہینے میں ناظرین حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول سننے کے لیے خصوصی نشریات دیکھا کرتے تھے، اس وقت ان نشریات کو رمضان کے حوالے سے کوئی خصوصی نام نہیں دیا جاتا تھا اور نا ہی یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے جاری رہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے ملک میں ٹی وی چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور نشریات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے پر محیط ہونے لگا، ویسے ہی مخصوص مہینوں میں پیش کی جانے والی نشریات کو نام دیا جانے لگا اور کس چینل کی ان نشریات کو زیادہ دیکھا جاتا ہے، اس کی بنیاد پر چینلز کی کامیابی کا دارومدار ہونے لگا‘‘۔ پروفیسرانعام کے مطابق یہ ہی وجہ ہے کہ خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج، عظیم الشان سیٹ، لاکھوں روپے مالیت کے انعامات کے انبار، مذہبی شخصیات اور شوبز کے ستاروں سے سجی نشریات کا سلسلہ گزشتہ چند برسوں میں رمضان کے مہینے میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
میڈیا ہاوسز سے تعلق رکھنے والے افراد کے مطابق رمضان کی ان نشریات کے دوران سب سے زیادہ مقبولیت پروگرام کے اس خاص حصے کو حاصل ہورہی ہے جس میں ہزاروں روپوں کے انعامات پروگرام میں شریک مہمانوں کو مختلف کھیل کھیلوں میں حصہ لینے کے عوض دیے جاتے ہیں۔ ان میں آم کھانے کے مقابلے سے لے کر محفل میں شریک سب سے زیادہ وزنی خاتون کے درمیان مقابلہ شامل ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ جس پروگرام میں تفریح کا عنصر سب سے زیادہ رکھا جا رہا ہے وہی پروگرام عوام میں پسندیدگی کی سند حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے مطابق پروگرام کی کامیابی یا ریٹنگ کی دوڑ میں نا صرف اس مقدس مہینے کی اصل روح متاثر ہو رہی ہے بلکہ پروگرام کے معیار بھی گرتے جا رہے ہیں۔رمضان نشریات سے چینل کے مالکان دوہرے فوائید حاصل کر رہے ہیں۔ ایک طرف مالکان خود کو دیندار دیکھا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ یہاں تک تو سب کچھ قابل قبول ہے لیکن جب ان موسمی دینی اسکالر کم اینکرز سے کوئی غلط بات ہو جاتی ہے تو یہ پورے معاشرے کی تقسیم کا باعث بنتی ہے جیسا ایک بڑے چینل کے ایک سابق معروف گلوکار اینکر جنید جمشیدنے ایک ایسی بات کر دی جو کرنے کی اُس کی حیثیت نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا اور خود ایک بڑے عالم کو اس کے حق میں بیان دینا پڑا۔ اس ہی پروگرام کی وجہ سے چند ماہ پہلے اُسےاسلام آباد ائرپورٹ پر عوامی رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
پاکستان میں رمضان کے مقدس اسلامی مہینے میں رمضان نشریات کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس کا مذہب اسلام سے دور دور کوئی واسطہ نہیں ۔ دولت کی ہوس نے چینلز کی ہائی ریٹنگ کی دوڑ میں سب سے آگے ہونے کے لیے بغیر کسی تحقیق کے اسلام کے نام پر جو کچھ بتایا یا دکھایا جارہا ہےوہ ایک غلط رجحان ہے جو روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔بجائے اس کے کہ رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اسلام سے متعلقہ علمی،ادبی،فکری،تعلیمی اور معلوماتی پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا جس میں مذہبی سکالرز کو مدعو کیا جاتا اور ان سے اسلام کے بارئے میں کچھ سیکھا جاتا، الٹا سیکھ یہ رہے ہیں کہ موبائل کی بھیک کیسے مانگی جاتی ہے، کھانے پینے کی چیزوں پر کیسےجھپٹا مارا جاتا ہے۔ چینلز کے سیٹھ تو یہ سب کرواینگے اس لیے کہ اس میں ہی ان کا فائدہ ہے، لیکن ارباب اختیار کو تو یہ سوچنا چاہیےکہ ان نام نہاد رمضان نشریات سے ملک کی کس قدر بدنامی ہورہی ہے۔ پاکستان جو کرپشن کے حوالے سے پہلے ہی پوری دنیا میں بدنام ہے ان رمضان نشریات سے مزید بدنام ہورہا ہے، لہذا حکومت کو چاہیے کہ ماہ رمضان میں بہودہ رمضان نشریات پر پابندی عائد کرئے۔