فرشتوں کا ایک جھنڈ سفر پر نکل پڑا! کہکشانوں سے ہوتا ہوا دودھیا راستوں سے گذرتا ہوا بروجوں سے ستاروں کی دنیا سے راستہ کرتا ہوا لا کے فلک سے اِلہ کے سماں تک تیرتا ہوا کہیں روشن دان و قندیلیں ستاروں کے تو کہیں قطاریں جمگھٹے شراروں کے کوکب و ثاقب و قمرستان سے ہوتا ہوا زمیں کی ایک ایسی جانب بڑھا ٹھہرا وہیں دیوانہ وار چِلّاتا ہوا یہ کیسی جگہ ہے یارب، جہاں سے بھیک میں نور ملتا ہے یہاں پر کون بستا تھا یہاں پر کون بستا ہے نورِ ازل کا سفر یہیں پر ختم ہوتا ہے نِدا آئی یہ یثرب کی وہ گلیاں ہیں جہاں پر نور چلتا تھا یہاں سردار نبیوں کا کیا کرتا تھا سرداری مدینے کی یہ گلیاں ہیں محمدۖ کا یہ آنگن ہے فرشتے روپڑے یہ بات سُن کر ہائے ہائے ہمارا کیوں نہیں مسکن بنایا اِس جگہ یارب خطا کیا تھی ہماری کیوں ہمیں محروم رکھا ہے ندا پھر ایک بار آئی تجلّیِ ازل سے خبر لو کچھ تو صحیح اپنی ہی تخلیقِ دوامی کی تمہارا ذرہ ذرہ تنکئہ نورِ محمدۖ ہے یہ سُن کر خوش ہوئے صد مرحبیٰ کے لگ گئے نعرے سلامِ ناز کرتے ہوگئے رخصت ملک سارے سلامِ ناز کرتے ہوگئے رخصت ملک سارے۔۔۔۔