اور کتنے؟

Amjad Sabri

Amjad Sabri

تحریر : شاہ بانو میر
غلام فرید صابری کی آواز میں تاجدار حرم ہو نگاہ کرم ہم بچے اُس وقت سے سنتے آ رہے ہیں جب کسی حرف کا کوئی مطلب نہیں جانتے تھے ٬ مگر اپنے بڑوں کو ہر ہر لے پر جھومتے اور داد دیتے دیکھتے تھے٬ کچھ سمجھ نہیں پاتے تھے تو دل ہی دل میں سوچتے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے جو ہمارے تایا چچا ڈیڈی جان ایسے مسحور ہو رہے ہیں؟ شعور ملا تو لفظوں کا مفہوم سمجھ آیا اور لفظوں کے ساتھ اپنے بڑوں کا وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دوران قوالی داد دینا سمجھا گیا کہ انہیں اللہ کے نبی کی محبت میں کہے گئے یہ کلمات ارد گرد سے بیگانہ کر دیتے تھے٬ اللہ کے نبی کی باتیں قوالی کی صورت سنتے سنتے انہیں بے خود کر دیتی تھی٬ پھر 1994 میں غلام فرید صاحب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ قوالی پر جمود طاری رہا گو کہ دوسرے قوال اپنے تئیں کوشش کرتے رہے اس عظیم ثقافتی ورثے کو بچانے کی مگر وہ بات نہیں تھی جو فرید صابری میں تھی۔

سنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے کو صبح تڑکے جگا جگا کر خوب ریاضت کروائی ہے کہ وراثت ختم نہ ہو ٬ مگر ابھی تک ان کے بیٹے کو دیکھا نہیں تھا٬ پھر ایک دن پھر بھاری تن و توش کا مالک ایک ٹی وی پروگرام میں دیکھا جیسے ہی اس نے الاپ شروع کیا تو ہر ایک کو پتہ چل گیا کہ اس کے اندر کس کی ریاضت موجود ہے٬ باپ کے نام نے ان کی محنت نے کام دکھایا اور قوالی کو ایک بار پھر سے کچھ جدت پسندی کے ساتھ پوری دنیا میں روشناس کروایا وہ آیا اور چھا گیا کے مصداق امجد صابری نے قوالی کو نئی جدت عطا کی اور نوجوان نسل کو محبت رسولﷺ کے ساتھ قوالی میں پرونے کا بیڑہ اٹھایا نوجوان نسل میں انہیں بھرپور پزیرائی ملی۔

معتبر نام محبت رسولﷺ میں ڈوب کر ابھرنےپھر ڈوبنے والا انسان ٬آج قاتلوں کی گولیوں کا نشان بن کرنبی پاکﷺ کے ساتھ ماہ رمضان میں شہادت پا کر محبت کی معراج پا گئے ٬ ماہ رمضان میں فتح مکہ کے موقعے پر ان کی شہادت گواہی بن گئی کہ اللہ پاک نے اس فن کے مجاہد کو شہید بنا دیا٬ قاتل پوشیدہ بھی ہے اور گمنام بھی ٬ مگر اس کی گولیاں امجد صابری کو جاوداں کر گئیں ٬ فنکار اداس اہل فکر و دانش غمگین ٬ اس ملک کے قیمتی جواہرات ایک ایک کر کے خاک میں رولے جا رہے ہیں ٬ ملک کا معیار اس کی نامور شخصیات کی اہلیت سے نمایاں ہوتی ہیں٬ کسی ملک کو سماجی معاشرتی تنہائی کا شکار کرنے کیلئے آسان ہدف اس کے بے ضرر افراد کا قتل ہے٬ پاکستان کو چھوڑ کر جانے والوں میں فنکاروں کی کثیر تعداد ہے۔

Rangers

Rangers

اندرونی حفاظتی حصار کو بہتر بنانے کیلیۓ ملکی سیکیورٹی فورسسز جاں توڑ کوشش کر رہی ہیں مگر دشمن ہر طرف سے اپنوں کے ساتھ موقعہ کی تاک میں رہتے ہیں٬ باوجود ہر کوشش کے اس ملک کے اندر آستین کے اتنے زہریلے سانپ ہیں جب تک ان کے سر کچلے نہیں جاتے تب تک اس ملک میں اہل ہُنر کو یونہی گولیوں سے خاموش کروایا جائے گا٬ ہر آنے والا دن عدم تحفظ کی نئی داستاں رقم کر رہا ہے٬ نازک ترین وقت ہے اس وقت پاکستان ہمیشہ ہمشیہ کیلئے دشمنوں کو مار بھگائے گا یا پھر ہتھیار ڈال دے گا٬ عوام مکمل یکسوئی کے ساتھ متحد اور منظم ہے رینجرز اور پاک فوج کے ساتھ ملک میں امن و امان بحال کرنے کی لئے مگر اس ملک کے سیاستدان کان بند کئے آنکھیں بند کئے صرف پانامہ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں٬ ملک کے سیاستدانوں سے اپیل ہے خدارا!! رحم کریں اس ملک پر اس کی عوام پر اپنی سیاست کو چمکانے کی بجائے ہر جان کی قیمت پر غور کریں۔

عوام کے جان و مال کے تحفظ کا اہتمام کریں٬ بچپن گزرا جوانی نئی نسل دیکھ ہی نہیں سکی دہشت کے اتنے مہیب سائے حاوی ہیں ملک کے درو بام پر٬ اس ملک پریشاں کے پاس چند نام ہی ہیں جو بیرونی دنیا میں متنازعہ نہیں ہیں ان کا قتل عام کر کے اس ملک کو خاموش موت کی وادی بنا دیا جائے گا٬ جہاں باہر سے کوئی بھی اہل ہُنر آنے سے کترائے اور آپ کی ثقافتی پہچان ختم کر کے آپ کو پتھروں کے دور میں جہالت کے گھپ گھیر اندھیروں میں بھٹکنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا جائے٬ آج اس قتل پر ذرا سوچئے قاتل کون ہو سکتا پے؟ دین کا نام لینے والے تو قاتل نہیں ہو سکتے٬دنیا داری والے بھی قتل نہیں کرنا چاہیں گے٬کیونکہ امجد صابری کی شخصیت میں کسی بھی سوچ یا زاویے سے کہیں بھی شدت پسندی نہیں ہے٬ دہشت گردی کی حالیہ لہر کس جانب سے اٹھ رہی ہے یہ سوال جلد جواب چاہتا ہے٬ اس ملک میں بسنے والے خواہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ ہو یا عوام کا من چاہا بے ضرر فنکار ان قاتلوں کے ہاتھوں کسی کو امان نہیں ہے۔

ایسے واقعات ازخود نشاندہی کرتے ہیں کہ را کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت ان میں ملوث ہے ٬ اگر یہ پاکستانی ہیں تو پھر صرف ایک بات حتمی ہے کہ قرآن پاک کے قریب سے بھی نہیں گزرے یہ لوگ کوئی آیت اس کا مطلب نہیں جانتے ورنہ ایک انسان کا قتل گویا ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی زندگی بچانا گویا ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے٬ حکومت وقت کو اپنی کاروائیوں کو مزید فعال مؤثر بنانا ہوگا٬ سیکیورٹی ایجنسیز کی حکمت عملی کو اب بڑھانا ہوگا٬ اگر اس وقت تساہل سے کام لیا گیا تو آج گھروں میں سہمے ہوئے دُبکے ہوئے سیکڑوں فنکار اور اداکار آج خوف سے ایک ہی بات سوچ رہے ہیں کہ ایک امجد صابری نہیں اور نجاے کتنے؟۔

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر