تحریر: راشد علی راشد اعوان معاشرہ میں رہنے والے قبیلے، خاندان اور برادریاں گو کہ بطور شناخت ایک دوسرے سے ممتاز ہوتی ہیں، ان کی رہائش، ان کا معاش اور ان کا تمدن جداگانہ ہوتا ہے؛ تاہم بحیثیت معاشرت سبھی ایک ہوتے ہیں۔ غم اور خوشی میں شریک ہونا ان کا اخلاقی فریضہ ہوتا ہے۔ حوادث ِزمانہ کے تھپیڑے کھائے ہوئے لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کی تکمیل کو وہ اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور کم وبیش سماج کے لوگ اس ذمہ داری کو اس لیے بھی نبھاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے گراں بار نہیں ہوتے؛ لیکن آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ سماج کے یتیم بچوں کی کفالت ہے۔
معاشرہ کے صاحب حیثیت اور متمول حضرات کے بھی قدم اس موڑ پر آکر رک جاتے ہیں؛ کیوں کہ ان کے سامنے یتیموں کا صرف پیٹ بھرنا ہی ایک ضرورت نہیں؛ بلکہ ان کی مکمل نگہداشت، تعلیم وتربیت اور ساری ضروریات کی تکمیل ایک لمبے عرصہ کی متقاضی ہوتی ہے،یہی سوچ کر گویا ہر ایک اپنے کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں ان بچوں کی زندگیاں یوں ہی ضائع ہوجایا کرتی ہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ پاک نے کسی کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑا، ہر ایک کے لیے ایسے اسباب وذرائع مہیا کردیے ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ اللہ کی زمین پر رہ کر اپنی زندگی کے ایام گزار سکے، یتیم ونادار اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری ہے اور اس سے منہ موڑلینا ان کے حقوق کی پامالی ہے،اسلام یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، بے سہارا اور غریب طبقے کو سہارا دینے۔
ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے کی ناصرف ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرے کے بے کس، محروم، نادار طبقے اور سوسائٹی کے محتاج، بے سہارا اور معصوم بچوں کی کفالت کے اہتمام کا حکم بھی دیتا ہے، معاشرے کے اس طبقے کو محروم رکھنے والوں کے لیے اسلام نے سخت انتباہ کی ہے اور کہا ہے کہ دین اسلام کو جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں، ان سے پیار نہیں کرتے، ان کی کفالت نہیں کرتے اور انہیں آسودگی دینے پر اپنا مال خرچ نہیں کرتے، وہ یتیموں کی ایسی کفالت نہیں کرتے جیسے اپنے بچوں کی کرتے ہیں، معاشرے کے ایسے افراد جو وسائل رکھتے ہوئے بھی اپنے مال سے یتیموں اور محتاجوں کا حصہ نہیں نکالتے ان کی نمازیں، حج و دیگر اعمال اللہ رب العزت رد فرما دیتا ہے،ایسے لوگوں کو دوزخ کے عبرتناک عذاب کیخبرسنائی گئی ہے کہ جو اپنی نمازوں کی تو بڑی فکر کرتے ہیں مگر سوسائٹی کے محروم و محتاج بچوں کے سروں پر سایہ نہیں بنتے،اس ھوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کی ملک بھر میں سماجی خدمات کے ساتھ الخدمت فائوندیشن کے زیر ایتمام سماجی خدمات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
Al-Khidmat Foundation
زندگی کے ہر شعبہ زندگی میں الخدمت فائونڈیشن لازم و ملزوم ہے،اسی طرح مانہسرہ میں داتہ کے مقام پر یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کا ذمہ بھی آغوش کی صورت میں اپنے کاندھوں پر لیکر ان کی کفالت کا حق ادا کیا جا رہا ہے،الخدمت فائونڈیشن کے زیر اہتمام آغوش مانسہرہمبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے معاشرے کے ایسے محروم، محتاج، بے کس وبے بس یتیموں کو سہارا دینے اور ان کی مکمل کفالت کا اہتمام کیا ہے اور یہی دین کی اصل روح ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ جنہیں اللہ رب العزت نے وسائل دے رکھے ہیں ان کے وسائل میں ایسے یتیموں کا بھی حق ہے۔آغوش سنٹر مانسہرہ میں ہزارہ ڈویژن کے طول و عرض سمیت آزاد کشمیر،گلگت بلتستان وغیرہ سے90بچوں کو گود لے رکھا ہے جہاں ان کی تعلیم و تربیت سمیت انہیں ضروریات زندگی کی ہر شے میسر ہے،90بچوں کی مکمل کفالت کے لیے ”آغوش” سرگرم عمل ہے،الخدمت فائونڈیشن کے صوبائی نائب صدر اور آغوش سنٹر مانسہرہ کے چئیرمین احسان الحق یاسر اور ایڈ منسٹریٹر ملک عمران جلیل کی شبانہ روز کوششوں کے سبب آغوش ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جہاں ان یتیم بچوں کا معیار زندگی بلند کر کے ان کی رہائش،خوراک،پوشاک اور بامقصد دینی و دنیاوی تعلیم کا مکمل بندوبست کر رکھا ہے۔
آغوش کی خدمات اور جذبہ انسانیت کو دیکھ کر میں تو وسائل رکھنے والے احباب سے یہی کہوں گا کہ وہ یتیم بچوں کی مکمل کفالت کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن اور آغوش کا ساتھ دیں، اللہ اور اس کے رسول پا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی حاصل کریں، یہ وہ عظیم اجر ہے جو ساری زندگی روزہ رکھنے اور رات بھر کے قیام سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا، یہ اسلام کا وہ تصورہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں دی جاسکتی،اس سلسلے میں راقم الحروف نے الخدمت فائونڈیشن کے صوبائی نائب صدر اور آغوش مانسہرہ کے چئیرمین احسان الحق یاسر،ادارہ کے ایڈمنسٹریٹر ملک عمران جلیل اور الخدمت فائونڈیشن و جماعت اسلامی مانسہرہ کی قابل رشک شخصیت کے مالک ڈاکٹر شعیب ہاشمی سے ایک نشست کی اور مختلف سوالات و جوابات سے مختلف امور زیر بحث آئے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ الخدمت فاؤنڈیشن ایک بین الاقوامی فلاحی و رفاعی تنظیم ہے جو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی منفعت کے لیے انہیں ہر شعبہ زندگی میں مدد و تعاون فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے الخدمت فاؤنڈیشن امداد باہمی کے تصور کے تحت معاشرے کے خوشحال طبقے کے ساتھ مل کر متاثرہ و بدحالی میں مبتلا طبقے کو عزت واحترام کے ساتھ انہیں خوشحال زندگی گذارنے کے لیے اعانت فراہم کرتی ہے جبکہ یتیم اور بے سہارابچوں کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت “آغوش” کا ادارہ قائم کیا گیا ہے جو کہ یتیم بچوں کی کفالت کا حق ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آغوش میں 5سے8سال تک کے بچوں کو گود لیا جاتا ہے اور14سال تک یعنی میٹرک تک ان کی مکمل نگہداشت آغوش میںکی جاتی ہے،اس کے بعد ثانوی کلاسز کیلئے انہیں اپنے ہی مری کالج میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی بقیہ تعلیم کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اسلام سلامتی کا دین ہے، اس کا عطا کردہ تصور فلاح و بہبود صرف نظریہ اور عقیدہ کی حد تک محدود نہیں بلکہ عملاً ایک نظام کی حیثیت رکھتا ہے،انہوں نے بتایا کہ اسلام میں باہمی معاشرتی و معاشی تعاون کا اصول قرآن و سنت کی سے واضح ہوتا ہے۔ ایسے غریب اور بے سہارا بچے جن کے سروں سے اس دنیا میں ان کے والدین کا سایہ اْٹھ چکا ہے ان کی بہترین پرورش اور تعلیم وتربیت معاشرے کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے “اور ان کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔ ” الخدمت نے معاشرے کے ایسے بے سہارا، یتیم بچوں کے لیے ادارہ ”آغوش” قائم کیا ہے۔
Orphan
جن سے دنیا میں باپ کا سایہ چھن چکا ہو۔آرفن سنٹر نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا جہاں ایسے بچے جن کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ جائے، آغوش ایسے بچوں کی کفالت اور تعلیم وتربیت کا شاندار اہتمام کرتا ہے،بچوں کی جسمانی، تعلیمی، تربیتی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی نشوونما اور ارتقاء کا اہتمام کرنابچوں کو معاشرے کا مفید اور معزز شہری بنانا،یتیم اور بے سہارا معصوم بچوں کو محفوظ چھت فراہم کرنا،بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کے ذریعے ان کے مستقبل کو محفوظ بنانا،یتیم بچوں کو معاشرے کا کارآمد اور قابل فخر انسان بنانا،عالمگیر اخوت کے لیے ذہن استوار کرنا،نظریہ پاکستان کی تفہیم کا اہتمام کرنا ،اسلامی نظریہ حیات کو بچوں کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں سمونا،بچوں میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرنا،بچوں میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا،بچوں میں محنت ومشقت کا جذبہ پیدا کرنا شامل ہے،اس حوالے سے ڈاکٹر شعیب ہاشمی نے بتایا کہ معاشرے کا وہ طبقہ جنہیں اللہ رب العزت نے وسائل دے رکھے ہیں انکے مال میں ایسے یتیم و بے سہارا محتاجوں اور مسکینوں کا بھی حق ہے الخدمت فائونڈیشن نے مرکزی سطح پر یہ ادارہ آغوش قائم کر رکھا ہے جبکہ ایک ادارہ مانسہرہ میں ہے جہاں یتیم بچوں کی کفالت کی جاتی ہے انہوں نے بتایا کہ مانسہرہ ہی نہیں ہزارہ دویژن اور ملک بھر سے صاحب حیثیت، صاحب استطاعت اور مختلف مکتبہ فکر کی شخصیات کو آغوش کا دورہ کرنا چاہیے اور انہیں اپنی قیمتی وقت میں سے چند لمحے ان یتیم بچوں کو بھی دینے چاہیے کیونکہ حقوق انسانیت میں بچوں کا بھی یہ اُن پر حق ہے، چئیرمین احسان الحق یاسر کا کہنا تھا کہ آغوش مانسہرہ میں بچوں کی مکمل نگہداشت کی جاتی ہے اور ان کیلئے ایسی خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے جو طبی اصولوں کے مطابق ہو،انہوں نے بتایا کہ بچوں کی صحت کی بحالی اور علاج معالجہ کیلئے فوری اقدامات ہماری اولین ترجیح ہے۔
بچوں کی بیماری کی صورت میں انکی عیادت اور مزاج پرسی کا نظام بھی وضع کیا گیا ہے،بچوں کیلئے ڈاکٹرز اورماہر نفسیات مقرر کئے گئے ہیں جو ماہانہ باقاعدگی سے ان کا میڈیکل چیک اپ کرتے ہیں۔آغوش کے بچے عصری علوم سیکھنے کیلئے مختلف تعلیمی ادراوں میں زیر تعلیم ہیں جن میں سے بیشتر بچے تعمیر ملت سکول آف ایکسیلنس اور مسلم ایجوکیشن میں زیر تعلیم ہیں جہان انہیں جدید نصاب کے مطابق انگلش،اردو،عربی،سائنس،ریاضی و دیگر ضروری علوم سے روشناس کروایا جاتا ہے، انہوں نے بتایا کہ آغوش انتظامیہ نے علیحدہ سے بچوں کیلئے ایکسٹرا کوچنگ کلاسز کا اہتمام کیا ہے اور اس کے لئے قابل ترین اساتذہ کو تعینات کیا گیا ہے،میرے ایک اہم سوال کے جواب میں احسان الحق یاسر نے بتایا کہ آغوش کے بچوں کو پرائمری تعلیم سے اعلیٰ تعلیم کے حصول تک کیلئے ان کا ادارہ اپنی خدمات سرانجام دیتا ہے،انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ڈونرآغوش کے بچوں کی کفالت کرنا چاہے تو وہ شعبہ مالیات میں ڈونر بچے کے ماہانہ اخراجات جمع کراسکتا ہے ،انہوں نے بتایا کہ آغوش وہ مثالی کفالتی ادارہ ہے جو یتیم اور معاشرے کے بے سہارا،نادار بچوں کو تحفظ،رہائش،خوراک،تعلیم ، تربیت،معاش،لباس اور صحت و علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے ،انہوں نے بتایا کہ آغوش جذبہ خدمت سے سرشار ہے اور ان کا مقصد حیات جاری و ساری رہے ۔