یورپی یونین کی ٹوٹ پھوٹ’ اسلامی یونین بنائی جائے

European Union

European Union

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے یا اسے چھوڑنے کے حوالے سے تاریخی ریفرنڈم کے دوران برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ اس طرح برطانیہ اور یورپی یونین کی 43سالہ رفاقت اختتام پذیر ہو گئی۔ ریفرنڈم میں قریباً 4 کروڑ 64 لاکھ سے زائد افراد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ ٹرن آؤٹ 71.8فیصد رہا۔برطانوی الیکٹورل ریفرنڈم کمشن نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ریفرنڈم میں ریکارڈ 72 فیصد سے زائد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ناکامی کے بعد عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین ماہ بعد وزارت عظمیٰ چھوڑ دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ایسے حالات میں ملک کی قیادت کریں کہ جب عوام نے اس موقف کی حمایت کی جس کے وہ مخالف تھے۔ ہمیں اب یورپی یونین سے بات چیت کے لئے تیار ہونا ہو گا۔

برطانیہ میں حالیہ ریفرنڈم کے فیصلہ سے پورے یورپ میں سخت پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریفرنڈم کیلئے بریگزٹ کے حامیوں اور مخالفین نے چار ماہ تک مہم چلائی۔ شمال مشرقی انگلینڈ’ ویلز اور مڈلینڈ میں زیادہ تر ووٹروں نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں جبکہ لندن، سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے زیادہ تر ووٹروں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیاتھاکہ کیا برطانیہ کو یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہیے یا اس سے الگ ہو جانا چاہئے؟ جس پر برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد اٹلی، فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک اور آسٹریا میں بھی سیاسی رہنمائوں نے اپنے ملکوں کی یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے۔ مطالبہ کرنے والے رہنمائوں میں اٹلی کی پارلیمنٹ میں ایوان زیریں کے نائب صدر لیوگی ڈی مائیو، فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی سربراہ میرین لی پین، ڈنمارک کی ڈینش پیپلزپارٹی کے رہنما کرسٹیان تھسولین ڈاہل شامل ہیں۔سویڈن میں سرکاری عہدیدار آئرین وینچو نے کہا کہ ڈنمارک کی طرف سے برطانوی طرز کے ریفرنڈم کے انعقاد پر پیشرفت کی صورت میں یہ سوچ سارے سکینڈے نیوین ممالک میں پھیل سکتی ہے۔ کئی یورپی ممالک کے رہنمائوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانوی ریفرنڈم کے نتائج کے بعد یورپی یونین ٹوٹ سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حالیہ نتائج کے بعد یونین کے کئی رکن ممالک میں کرنسی یورو کے استعمال پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔یورپی رہنمائوں میں اس وقت صف ماتم بچھی ہوئی ہے اور وہ اسے برطانیہ و یورپ کیلئے دکھ کا ایک دن قرار دے رہے ہیں۔

Obama

Obama

فن لینڈ کے سابق وزیر اعظم الیگزینڈر اسٹوب اسے ایک ڈرائونا خواب قرار دے رہے ہیں تو جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر مائر کا کہنا ہے کہ اس خبر نے انہیں حقیقی معنوں میں اداس کر دیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے حالیہ دورہ لندن کے دوران خبردار کیا تھا کہ اگر برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ دیا تو اسے امریکہ کے ساتھ ہونے والے آزادانہ تجارت کے معاہدے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔اوبامہ کے اس دھمکی آمیز بیان کا برطانوی عوام نے سخت برا منایا اور مختلف شہروں میں اس سلسلہ میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔ برطانیہ کے مختلف حلقوں کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو امریکہ کا دم چھلا بن کر نہیں رہناچاہیے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حالیہ ریفرنڈ م میں اوبامہ کے اس دھمکی آمیز بیان کے بھی اثرات ہوئے ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ یورپی یونین میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی معیشت تباہ حالی سے دوچار ہے اور وہاں بیروزگاری عروج پر ہے۔ اس لئے ان ملکوں میں بسنے والے افراد کی جانب سے برطانیہ کی جانب نقل مکانی کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔اس میں ان کیلئے فائدے کی بات یہ تھی کہ برطانیہ میں قیام پذیر ہونے کے بعد انہیں تمام مراعات حاصل ہوتیں حتیٰ کہ جو لوگ بے روزگارہوتے انہیں بے روزگاری الائونس ملتا اورجن کے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا اسے سرکاری سطح پر رہائش فراہم کی جاتی تھی۔یہ بھی کہا گیا کہ ایشیائی ممالک کے لوگ بھی اس حوالہ سے بہت فائدے اٹھارہے ہیں

جس سے مستقبل میں خطرات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن یہ محض پروپیگنڈا تھا حالانکہ ان کی تعداد یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ملکوں سے برطانیہ جانیو الوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر کہی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین نے معاشی اور سیاسی طور پر دنیا کو قبضے میںلے رکھا تھا تاہم اب اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکاہے۔برطانیہ نے اس سے علیحدگی کا فیصلہ کیاہے جس کے نتیجے میںپائونڈ گر رہا ہے۔برطانیہ کی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔برطانیہ کے بعض دانشور اور لیڈر سمجھتے ہیں کہ جن ملکوں میں برطانیہ نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں اور تباہی پھیلائی تھی وہاں مسلمان آباد ہو گئے ہیں۔یورپ،فرانس ،جرمنی بھی مسلمانوں سے بھر گئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام دم توڑ رہا ہے اور برطانیہ جس نظام پر چل رہا تھا وہ خطرے میں ہے۔اس لئے اب وہ قوانین بدلنا چاہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو مغربی ممالک نے بڑی دیگر تک مسلم ملکوں کی معیشت پر قبضہ جمائے رکھا لیکن مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کی قوت کو آہستہ آہستہ توڑ رہا ہے۔ اب برطانیہ میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑنے کا اندیشہ ہے۔

Scotland

Scotland

سکاٹ لینڈ میں بھی برطانیہ سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کا مطالبہ دوبارہ قوت پکڑے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی منافقانہ پالیسیاں دیکھ کر جوں جوں مسلمان ملک اس سے دور ہو رہے ہیں وہ آپس میں متحد ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب کی قیادت میں 34ملکی اتحادامت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز بن رہا ہے۔ پاکستان جسے اللہ تعالیٰ نے ایٹمی قوت سے نواز رکھا ہے وہ بھی مسلم دنیا کی قیادت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یورپی یونین عملی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی اور آنے والے دنوں میں اس کا متحد رہنا ناممکن ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ مسلمان ملکوں کا امریکہ و برطانیہ کے کلچ سے نکلنا ان شاء اللہ ان کی اپنی اسلامی یونین کے قیام کے راستے ہموار کرے گا۔ اسلام کے پھیلنے اور مسلمانوں کے مضبوط ہونے کا خوف صلیبیوں و یہودیوں کو کھائے جارہا ہے’یہی وہ خوف ہے جس کے سبب وہ معاہدے کر رہے ہیں اور پاکستان ، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ملکوں کو نقصانات سے دوچار کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں لیکن دنیا کے حالات میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آرہی ہیں۔ یورپی یونین کی طر ح نیٹو جیسے اتحاد بھی ان شاء اللہ زیادہ دیر تک اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب مسلم امہ کی قیادت کرتے ہوئے انہیں ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ڈالر اور پائونڈکی غلامی سے نکل کر اپنا مشترکہ دفاع اور الگ کرنسی تشکیل دیں۔دشمنان اسلام کی سازشوں کے مقابلہ کیلئے جرأتمندانہ راستہ اختیار کر کے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ آخر میں میں یہاں بھارت کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جہاں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی خبروں پر ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یورپ میں کاروبار کرنے والی انڈین کمپنیاں اکثر برطانیہ میں ہی اپنے صدر دفاتر قائم کرنا پسند کرتی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تخمینوں کے مطابق یورپی یونین سے انخلا کے نتیجے میں برطانوی معیشت کا حجم پانچ فیصد تک کم ہوسکتا ہے اور یہ بھارتی معیشت کے لئے بھی بری خبر ہے۔ پراجیکٹس کی تعداد کے حساب سے برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھارت تیسرے نمبر پر ہے وہاں تقریباً 800 بھارتی کمپنیاں کاروبار کر رہی ہیں جن میں تقریباً ایک لاکھ دس ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔ ان میں ٹاٹا جیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔انڈین کمپنیاں پورے یورپ سے زیادہ برطانیہ میں سرمایہ کاری کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے ڈائریکٹر جنرل چندرجیت بنرجی کا کہنا ہے کہ اگر ان کمپنیوں کو یورپ تک بلا روک ٹوک رسائی حاصل نہیں ہوگی تو ان کے کاروبار متاثر ہو سکتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا پاکستان پر تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا البتہ ہندوستان میں روپے کی قدر بھی کم ہو گی اور برطانیہ سے ان کی تجارت بھی متاثر ہو گی۔

Habibullah Salafi

Habibullah Salafi

تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ : 0321-4289005