تحریر: اشفاق راجا برطانوی عوام نے تاریخی ریفرنڈم میں یورپی یونین سے آزادی کے حق میں ووٹ دے دیا۔ ریفرنڈم کے نتائج سامنے آنے کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور کہا کہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہ نئی قیادت کو آگے آنے کا موقع دے رہے ہیں جو یورپی یونین سے مذاکرات کریگی۔ برطانیہ نے 1973ء میں یورپئین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب 43 سال بعد عوامی ریفرنڈم کے نتیجہ میں برطانیہ یورپی یونین سے باہر نکل رہا ہے اور اب اسے اپنی الگ شناخت اور نشاة ثانیہ کے احیاء کیلئے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ریفرنڈم میں برطانیہ کے چار کروڑ 64 لاکھ سے زائد شہریوں نے حق رائے دہی استعمال کیا جو برطانیہ کی مجموعی آبادی کا 72 فیصد ہے۔ ان میں 52 فیصد نے یورپی یونین سے علیحدگی اور 48 فیصد نے یورپی یونین سے وابستہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔تجزیاتی رپورٹ نیوز ایجنسی بی این پی کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت والے برطانوی شہروں نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا جن میں شمال مشرقی انگلینڈ’ ویلز اور مدرلینڈ شامل ہیں جبکہ لندن’ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے شہریوں کی اکثریت نے یورپی یونین سے وابستہ رہنے کے حق میں ووٹ ڈالا۔
یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کا فیصلہ سامنے آتے ہی برطانیہ اور دوسرے ممالک بالخصوص ایشیائی ممالک کی معیشت میں کھلبلی پیدا ہوگئی ہے اور سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی ہے۔ اس فیصلہ کے ساتھ ہی عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت کو پَر لگ گئے اور قیمت 360 1ڈالر فی اونس تک جا پہنچی جبکہ برطانوی پائونڈ کی قدر میں 31 سال بعد نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستانی کرنسی کے حساب سے برطانوی پائونڈ پندرہ روپے سستا ہوگیا ہے۔ برطانوی عوام کے قومی شعور کا اندازہ اس امر سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مستقبل کے تعین کے اہم ترین مرحلے میں اپنی رائے کے اظہار کیلئے گزشتہ روز برطانیہ میں آنیوالے طوفان بادوباراں کی بھی پرواہ نہ کی اور جوق درجوق گھروں سے نکل کر الیکٹورل ریفرنڈم کمیشن کے بنائے گئے پولنگ بوتھوں تک پہنچے اور جوش و خروش کے ساتھ ریفرنڈم میں حصہ لیا۔
Polling
یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ علیحدگی سے ابتداء میں ہمیں معاشی مشکلات کا ضرور سامنا کرنا پڑیگا تاہم مستقبل میں برطانیہ کو اس کا مجموعی طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہو چکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانیوالا حصہ ملک میں خرچ ہو سکے گا۔ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کی شرح 72 فیصد ہے جو عام انتخابات میں ڈالے جانیوالے ووٹوں سے بھی زیادہ ہے۔ برطانوی عوام میں یورپی یونین سے علیحدگی کی سوچ یورپی یونین کے کم وسائل والے ممالک کے عوام کے برطانوی ملازمتوں’ معیشت’ تجارت اور دوسرے وسائل پر غالب آنے کے باعث پیدا ہوئی تھی۔ بالخصوص ایشیائی ممالک بشمول پاکستان’ بھارت’ جاپان’ ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے برطانوی شہریوں میں برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت سے اپنی حق تلفی کا احساس زیادہ شدت کے ساتھ ابھر رہا تھا۔
چنانچہ انہوں نے مختلف فورموں پر اور پھر عوامی مظاہروں کی شکل میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ برطانوی حکمران کنزرویٹو پارٹی یورپی یونین کے ساتھ وابستہ رہنے کیلئے قومی ریفرنڈم کرانے پر مجبور ہو گئی جبکہ حکمران پارٹی بذات خود یورپی یونین کے ساتھ وابستہ رہنے کے حق میں تھی۔ ریفرنڈم کے اعلان کے بعد یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں نے منظم طریقہ سے مسلسل چار ماہ تک مہم چلائی جس کے دوران برطانوی شہریوں کو اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یورپی یونین کی شکل میں آزادانہ تجارت کیلئے قائم ہونیوالی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے جس کا برطانوی معیشت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے باشندوں کیلئے امیگریشن کے قوانین کی نرمی سے ان ممالک کے شہری ہجوم کی شکل میں برطانیہ آکر یہاں کی معیشت پر قابض ہو گئے ہیں جس سے برطانیہ کا تشخص بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
یقیناً ان دلائل میں وزن تھا اس لئے برطانوی عوام کی اکثریت نے اس موقف پر قائل ہو کر برطانیہ کو یورپی یونین سے خلاصی دلانے کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح قوم کے مستقبل کے تعین کیلئے ایک نئی تاریخ رقم کردی جبکہ یورپی یونین سے وابستہ رہنے کے حامی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی قوم کے اجتماعی شعور کا احترام کرتے ہوئے اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کرکے رائے عامہ کو مقدم رکھنے اور اس کا احترام کرنے کی صحت مند روایت قائم کی جو جمہوریت کے علمبرداروں کیلئے بہرصورت مشعل راہ ہونی چاہیے۔
USA
تجزیاتی رپورٹ نیوز ایجنسی بی این پی کے مطابق برطانوی سلطنت کے بارے میں یہ تصور راسخ تھا کہ کرہ ارض پر موجود اس سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اس سلطنت کی وسعت کے باعث تاج برطانیہ کی دنیا کے غالب حصے پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور 18 ویں صدی تک برصغیر بھی برطانوی سلطنت کے زیرنگیں ہو گیا۔ تاہم قانون فطرت اپنی جگہ برحق ہے جس کے تحت تاج برطانیہ کی حدود سکڑنا شروع ہوئیں تو وہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنیوالے یورپی ممالک کی سطح پر آگیا۔ یہ بھی مکافات عمل ہے کہ جس امریکہ کا برطانوی کوکھ میں سے جنم ہوا تھا آج وہ سپرپاور ہے اور برطانیہ کو بھی ڈکٹیٹ کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ اسکے باوجود تاج برطانیہ کا آج بھی آسٹریلیا’ کینیڈا میں اثرونفوذ ہے جبکہ برصغیر میں تاج برطانیہ سے خلاصی کیلئے شروع ہونیوالی 1857ء کی جنگ آزادی نے بالآخر تقسیم ہند کی شکل میں برطانوی راج سے نجات دلا دی۔ تقسیم ہند کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو دولتِ مشترکہ کے ماتحت پاکستان اور بھارت کی برطانیہ کے ساتھ وابستگی ہوئی۔
اگرچہ برطانوی راج کی پیدا کردہ قباحتیں ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور بھارت کے ساتھ جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر بھی ان قباحتوں میں شامل ہے’ اسکے باوجود دولتِ مشترکہ کے ماتحت ہمارے شہریوں کو برطانیہ جانے’ وہاں قیام اور کاروبار کرنے اور پھر برطانوی شہریت حاصل کرنے کے معاملہ میں امیگریشن کی کئی سہولتیں حاصل ہوئیں چنانچہ آج عملاً لاکھوں پاکستانی شہری کاروبار اور روزگار کے سلسلہ میں اپنا مستقبل برطانیہ کے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں جو اب ریفرنڈم کے ذریعے برطانیہ کو یورپی یونین کے شکنجے سے نکلوا کر اس کا الگ تشخص قائم کرانے میں بھی معاون بنے ہیں۔ اس تناظر میں ہمارے مفادات آج بھی برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہیں کیونکہ وہاں سے اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانیوالی رقوم کی صورت میں قیمتی زرمبادلہ قومی خزانے میں شامل ہوتا ہے۔ برطانیہ کو یقیناً اب نئے چیلنجوں کا سامنا ہوگا اور یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلہ کے بعد اسکی معیشت اور سٹاک مارکیٹ کو جو جھٹکا لگا ہے’ اس سے عہدہ برآ ہونے اور اپنی معیشت کو سنبھالنے کیلئے اسے اپنے شہریوں کی استقامت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے تعاون کی بھی ضرورت پڑیگی۔
موجودہ صورتحال میں اگر برطانیہ دولت مشترکہ پر اپنی توجہ مرکوز کرکے اسکے رکن ممالک کے ساتھ اقتصادی’ تجارتی روابط زیادہ مستحکم بناتا ہے اور اپنا دفاعی حصار بھی دولت مشترکہ کوہی بناتا ہے تو اسے یورپی یونین کی ممکنہ بلیک میلنگ کا ٹھوس بنیادوں پر سامنا اورتوڑ کرنے میں بھی آسانی ہوگی جبکہ دولت مشترکہ کے رکن ممالک کی مین پاور برطانیہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتی ہے اس لئے برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں زیادہ وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ قومیں یقینًا ایک کاز کے ساتھ عزم صمیم سے وابستہ ہو کر اور اس کاز پر کسی قسم کی مفاہمت نہ کرکے ہی استوار ہوتی ہیں۔ برطانوی عوام اس تناظر میں اپنے کاز کے ساتھ وابستگی کا عملی نمونہ ثابت ہوئے ہیں۔