کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کو بھارت سے بڑے پیمانے پر روئی کی خریداری کا آرڈرز ملنے کے باعث گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں زبردست تیزی کا رجحان سامنے آیا جبکہ مسلسل بدلتے ہوئے عالمی حالات کے باعث روئی کی بین الاقوامی منڈیوں میں کبھی تیزی اور کبھی مندی کے رجحان کے باعث ہفتے کے اختتام تک روئی کی قیمتوں میں تیزی یا مندی کا کوئی واضح رجحان سامنے نہ آ سکا۔ تاہم توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ رواں ہفتے کے دوران پاکستان میں عید الفطر کی تعطیلات کے باعث ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث روئی کی ترسیلی سرگرمیاں تو شاید معطل رہیں گی۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ کچھ عرصہ پاکستانی کاٹن جنرز اور ایکسپورٹرز کو بھارت سے روئی کے خریداری آرڈرز ملنے شروع ہوئے تھے تاہم بھارت میں اعلیٰ معیار کی حامل روئی کی عدم دستیابی اور قیمتوں میں زبردست تیزی کے رجحان کے باعث بھارتی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بڑے پیمانے پر پاکستان سے روئی کے درآمدی سودے شروع کر دیے اور آخری اطلاعات تک بھارتی ٹیکسٹائل ملز مالکان پاکستان سے روئی کی تقریباً 60 ہزار بیلز کے درآمدی سودے مکمل کر چکے تھے اور مزید سودے بھی مسلسل جاری تھے۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت کے بعد بنگلا دیش،انڈونشیا اور ویت نام نے بھی پاکستان سے روئی کی درآمد میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی کہ رواں ہفتے کے دوران یہ ملک بھی پاکستانی کاٹن جنرز سے بڑی تعداد میں روئی کی درآمد کے معاہدوں کو حتمی شکل دے دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران نیویارک کاٹن ایکسچینج میں حاضر ڈلیوری روئی کے سودے 1.80 سینٹ فی پاؤنڈ اضافے کے بعد 74.55 سینٹ فی پاؤنڈ اور اکتوبر ڈلیوری روئی کے سودے 1.42 سینٹ فی پاؤنڈ کمی کے بعد 64.83 سینٹ تک گر گئے تاہم بھارت میں روئی کی قیمتیں ریکارڈ 627 روپے فی کینڈی اضافے کے ساتھ پچھلے 6 سال کی بلند ترین سطح 40 ہزار 867 روپے فی کینڈی اور چین میں روئی کی قیمتیں 135 یو آن فی ٹن اضافے کے ساتھ 13 ہزار 265 یو آن فی ٹن تک پہنچ گئیں جبکہ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن میں روئی کے اسپاٹ ریٹ 100 روپے فی من اضافے کے ساتھ 5 ہزار 600 فی من اور اوپن مارکیٹ میں روئی کی قیمتیں 250 روپے فی من اضافے کے ساتھ 6 ہزار 150 روپے فی من تک پہنچ گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں 22 کے قریب جننگ فیکٹریاں آپریشنل ہو چکی ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ عید الفطر کی تعطیلات کے بعد سندھ اور پنجاب کے کئی شہروں میں مزید جننگ فیکٹریاں آپریشنل ہو جائیں گی۔انہوں نے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران ملک بھر میں کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ پالیسی ایک متنازعہ حیثیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ پچھلے کافی عرصے سے نئی فصل کی روئی کی قیمتیں 6 ہزار سے 6 ہزار 100 روپے فی من اور پرانی فصل کی روئی کی قیمتیں 5 ہزار 800 سے 6 ہزار روپے فی من تک مستحکم ہونے کے باوجود کے سی اے کے اسپاٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تاہم گزشتہ ہفتے کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے صدائے احتجاج کے بعد کے سی اے کے اسپاٹ ریٹ میں صرف 100روپے فی من کا اضافہ کیا گیا ہے جو اس ہفتے کے اختتام پر 5 ہزار 600 روپے فی من پر بند ہوا ہے۔
چیئرمین کے سی اے خواجہ طاہر عالم نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے جو اس سارے مسئلے کی مکمل چھان بین کرے گی۔ احسان الحق نے بتایا کہ پاکستان سے بڑے پیمانے پر روئی کی برآمد شروع ہونے پر اپٹما نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کو اپنی روئی کی ضروریات پوری کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے پاکستان سے روئی کی برآمد محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی برآمد پر ڈیوٹی کا بھی نفاذ کیا جائے تاہم کے سی اے اور کسان تنظیموں نے اسے پاکستانی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے روئی کی برآمد جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ مل سکے جبکہ دوسری جانب کاٹن ایسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی اپٹما کے اس مطالبے پر اپنے سخت ردعمل کا اظہا کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بھارت سے رواں سال روئی کی 15 سے 20 لاکھ بیلز درآمد کی تھیں تو بھارتی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے پاکستان کو روئی برآمد کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بعض پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان کاٹن جنرز سے خریدی گئی روئی کی کروڑوں روپے کی ادائیگیاں نہیں کر رہے جس کے باعث بعض کاٹن جنرز معاشی بحران جبکہ بعض دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے بیشتر ٹیکسٹائل ملز مالکان نے اس پیسے سے دبئی میں ریئل اسٹیٹ کا بزنس شروع کیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اس بزنس میں ان کو ہونے والے کروڑوں روپے کے نقصان کے باعث کاٹن جنرز کو ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہیں۔