تحریر : اشفاق راجا پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ جمہوریت پنپ رہی ہے، فوج جمہوریت کی مدد کر رہی ہے، قومی سلامتی کے امور پر سب ایک ہیں،مشاورت ہوتی ہے، طلب کرنے پر سول حکومت کی مدد کرتے ہیں،سول ملٹری تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، فوجی اور سول قیادت میں فاصلے نہیں، بھارت کے ساتھ کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ پاکستان نے دْنیا کی جنگ لڑی، لیکن پھر تنہا چھوڑ دیا گیا، سب سے زیادہ قربانیوں کے باوجود ڈو مور کا مطالبہ ناانصافی ہے۔ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، مْلّا منصور افغان عمل میں معاون تھے، اْنہیں نشانہ بنانے سے امن عمل کو دھچکا لگا، ڈرون حملے کی اطلاع نہیں دی گئی نئی طالبان قیادت سے مذاکرات کے لئے جلد کچھ نہیں کیا جا سکتا انہوں نے اِن خیالات کا اظہار جرمن میڈیا سے انٹرویو کے دوران کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بالواسطہ طور پر اْن تمام سازشی تھیوریوں کو رد کر دیا ہے، جو سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے حالیہ دِنوں میں بعض مخصوص حلقوں کی جانب سے پھیلائی جاتی رہی ہیں اور بعض سیاست دان اِس مہم میں آگے آگے ہیں، اْن کی ”پیش گوئیوں” کا سلسلہ اِس امر کے باوجود جاری رہتا ہے کہ وہ بار بار غلط ثابت ہو چکے اور جو بھی باتیں انہوں نے ارشاد کیں، وقت نے اْنہیں جھٹلا دیا،لیکن اس کے باوجود وہ کوئی نہ کوئی ہوائی چھوڑتے رہتے ہیں، خواہ مطلب کچھ نہ ہو۔ پاک فوج کے ترجمان نے غیر مبہم اور واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ فوج نہ صرف جمہوریت کی حامی ہے، بلکہ سول حکومت نے جب بھی اْسے طلب کیا وہ فوراً مدد کو پہنچی، فوجی اور سول قیادت کے درمیان فاصلے نہیں اور قومی امور پر مشاورت کا عمل جاری رہتا ہے۔
جہاں تک مختلف امور میں مشاورت کا تعلق ہے اس سے نہ صرف بہترین راہ نکلتی اور محفوظ ترین راستہ ملتا ہے، بلکہ مسلمانوں کو تو باقاعدہ حکم ہے کہ وہ اپنے امور میں مشاورت کر لیا کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مسلسل مشورہ کرتے رہتے تھے اور تاریخِ اسلام میں ہمارے سامنے متعدد ایسے واقعات آتے ہیں، جبکہ مشاورت کے نتیجے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام? کی رائے کو اہمیت دی، ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس امر کے پابند ہیں کہ اپنے باہمی امور مشاورت سے انجام دیں۔
Democracy
جدید دْنیا کی جمہوریتوں نے مشاورت کے اس عمل سے استفادہ کی خاطر پارلیمینٹ کا ادارہ قائم کیا اور لوگوں کے ووٹ سے منتخب ہونے والوں کو حکومتی امور میں حصہ دار بنایا، دْنیا میں جہاں جہاں جمہوریتیں مضبوط ہیں وہاں ان ملکوں کے قومی ادارے امورِ مملکت کی انجام دہی میں پوری طرح دخیل ہیں اور کسی بھی فردِ واحد کو چاہے وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو اپنے اختیارات پر بعض پابندیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ یورپ کے بہت سے ملکوں میں آئینی بادشاہتیں موجود ہیں، لیکن اْن کے قومی امور منتخب نمائندے چلاتے ہیں۔ امریکی صدر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں، حتیٰ کہ وہ کانگرس کے منظور کردہ کسی بھی قانون کو ویٹو کر سکتے ہیں، لیکن اول تو اس کی نوبت کبھی کبھار آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ صدر کے ویٹو کے حق کو بھی اس وقت مسترد کر دیا جاتا ہے، جب کانگرس کوئی قانون دو تہائی اکثریت سے منظور کر دیتی ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ نظام جمہوریت کو پٹڑی پر رکھتا ہے۔
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جمہوریت بہترین نظام ہے، لیکن انسانی بصیرت نے اب تک نظامِ حکومت چلانے کے لئے جو بھی نظام بنائے ہیں اْن میں جمہوریت ہی بہترین ہے۔ اس نظام میں عوام کے منتخب نمائندے ایک معین مدت کے لئے حکومت چلاتے، جو کچھ اْن کی دانش رہنمائی کرتی اس کے مطابق مْلک و قوم کی خدمت کرتے اور وقتِ معینہ پر رخصت ہو جاتے ہیں اْن کی جگہ نئی قیادت نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے آ جاتی ہے۔ دْنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے مزاج، حالات اور قومی فلسفے کی روشنی میں اپنے ہاں جوبھی نظام رائج کیا ہے اس کی روح مشاورت ہے، مشاورت کے ساتھ جو بھی عمل کیا جائے گا اس کے نتائج ہمیشہ مفید اور مثبت نکلیں گے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب مملکت کے بڑے عہدیداروں کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق نہ تھے۔ گورنر جنرل اور وزیراعظم کے درمیان اختلاف کی وجہ سے اسمبلیاں ٹوٹتی رہیں، اِسی طرح صدر اور وزیراعظم کے اختلافات کے باعث بھی ایسا ہوا۔ یہ سب کچھ اگرچہ قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر ہوتا رہا، لیکن ان کے پس منظر میں ہمیشہ ذاتی اور گروہی مفادات ہی نظر آئے۔ایک بڑے عہدیدار نے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں سارے نظام کو ہی تلپٹ کر دیا اور پھر حالات کو درست کرتے کرتے برسوں لگ گئے۔
Pak Army
ماضی میں فوج بھی سیاسی امور میں مداخلت کرتی رہی اور سیاست دان بھی اس کا موقع فراہم کرتے رہے۔ سیاسی حکومتوں نے اپنے ادوار میں اپنے مقاصد کے لئے کمانڈر انچیف کو وزیر دفاع کا عہدہ بھی سونپا اور وہ اس حیثیت میں کابینہ کے اجلاسوں میں شریک بھی ہوتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ 58ء میں فوج نے براہِ راست اقتدار سنبھال لیا۔ اگرچہ یہ مداخلت اصلاحِ احوال کے دعوے کے ساتھ کی گئی، لیکن فوجی ادوار کے بعد معلوم ہوا کہ فوجی حکومتیں بہت سے ایسے کام کر گئیں جن سے قومی مفاد کا تحفظ نہیں ہوا۔
ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں نے اِن حالات سے سبق سیکھ کر اب درست طریقِ کار اپنا لیا ہے۔ فوج سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی، البتہ قومی امور میں عسکری قیادت کی مشاورت سے بہترین پالیسی تشکیل دی جا سکتی ہے تو ایسی مشاورت بہت ضروری ہے۔نیوز ایجنسی بی این پی کے تجزیہ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمہوریت کی کھل کر حمایت کر کے اْن عناصر کی زبانیں بند کر دی ہیں جن کا کاروبار ہی اْس وقت چلتا ہے جب فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔
کیونکہ عام حالات میں ان کو کوئی پوچھتا نہیں اِس لئے ایسے راندہ درگاہ سیاست دان کوئی نہ کوئی سیاسی پھلجھڑی چھوڑتے رہتے ہیں۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اس اعلان سے ایسے سیاست دانوں کے ارادوں پر اوس تو پڑ گئی ہے، لیکن جن کا روزگار افواہوں سے وابستہ ہے وہ اْن کی اِن دو ٹوک باتوں سے بھی اپنا مفید مطلب مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کریں گے تاہم جنرل باجوہ نے اپنا فرض بروقت ادا کر دیا۔