تحریر : اشفاق راجا دانشمندی سیاہ گوش سے لوگوں نے کہا کہ تجھے شیر کا ساتھ کیوں پسند آیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا ”شیر کا ساتھ اس لئے پسند آیا کہ اس کا بچا کھچا کھالیتا ہوں اور دشمنوں کے شر سے بچا رہتا ہوں کہ شیر کے دبدبے سے کوئی میرے نزدیک نہیں آتا۔ شیر کی پناہ میں زندگی بسر کررہا ہوں۔” انہوں نے کہا ”اب جبکہ تو شیر کی حمایت کے سایہ میں ا?گیاہے اوراس کی مہربانیوں کاتواقرار بھی کرتا ہے، تو اس کے زیادہ نزدیک کیوںنہیں جاتا؟”۔ سیاہ گوش نے جواب دیا کہ شیر کی مہربانیوں کے باوجودانش مندی اسی میں ہے کہ اس سے دور رہوں اور محفوظ رہوں۔ ہوسکتا ہے شیر کا کسی وقت مزاج بگڑ جائے اور وہ مجھے ہی اپنا لقمہ بنائے، اس لئے دور رہنا بہتر ہے۔ اطمینان قلب کسی بزرگ سے لوگوں نے پوچھا کہ تصوف کی حقیقت کیا ہے؟ بزرگ نے جواب دیاکہ اب سے پہلے دانائوں میںایک گردہ ہوتاتھا۔ ان لوگوں کی صورت پراگندہ اوردل مطمئن ہوتا تھا اور اب ایک ایسی مخلوق ہے جن کا ظاہر مطمئن ہے لیکن دل پر اگندہ ہے۔ اطمینان قلب بڑی چیز ہے۔
مفلس وہ نہیں جس کے پاس دولت نہیں، در حقیقت مفلس تو وہ ہے جس کے پاس خرانہ تو ہے اطمینان قلب نہیں۔ کائنات کی تسبیح مجھے یاد ہے کہ ایک قافلہ کے ساتھ میں رات بھر چلتا رہااور صبح کے وقت ایک جنگل کے کنارے سویا ہوا تھاکہ ایک دیوانے نے جواس سفر میں ہمارے ساتھ تھا، نعرہ لگایا اور سجدے میں گرگیا اور پھر کافی دیر کے بعد جب اس نے سراٹھایا تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا حالت تھی۔ اتنے لمبے سفر میں توتمہیں سجدہ کرتے نہ دیکھا۔ اب نعرہ لگاکر سجدے میں کیوں گرگئے؟ اس نے کہا میں نے نیم بیداری کی حالت میں دیکھا کہ بلبلیں درختوں پر، چکوریں پہاڑوں، مینڈک پانی میں اور چوپائے جنگل میںاللہ کی تسبیح کررہے ہیں۔
میں نے سوچا کہ یہ انسانیت نہ ہوگی کہ سب مالک خالق کی تسبیح کررہے ہوں اور میں غفلت میں پڑا رہوں۔ خوش گلوئی کاجادو حجاز کے سفرمیں صاحب دل جوانوں کایک گردہ ہمارے ساتھ تھا۔ ایک دوسرے کے رفیق اور ساتھی۔ اکثر گانا گاتے اور محققانہ شعر پڑھتے اورایک عبادت گزار اسی راستے میں فقیروں کی حالت کامنکراوران کے درد سے بے خبر تھا۔ یہاں تک کہ ہم مقام بخیل تک پہنچے توعرب قبیلہ سے ایک حبشی نکلا۔ کہنے لگا: ایسی سریلی آواز نکالی کہ اڑتے ہوئے پرندے بھی مسحور ہوکر بیٹھ گئے۔ اونٹ ناچنے لگے۔ ہم سب جاگ رہے تھے، لیکن یوں لگا جیسے سورہے ہیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ سریلی آواز میں جادو ہے۔
Angry Face
متحمل مزاجی ایک صاحب دل نے دیکھا کہ ایک پہلوان غصے میں لال پیلا ہورہا ہے اس کی منہ سے جھاگ نکل رہا ہے صاحب دل نے لوگوں سے پوچھا کہ اس پہلوان کو کیا ہواہے؟ ایک شخص نے بتایا کہ پہلوان کو کسی نے گالی دی ہے۔ یہ غصے میں بھرا ہوا ہے۔ گالی دینے والا اگر اب اس کے سامنے آگیا یہ اس کوکچا چبا جائے گا۔ صاحب دل نے کہا۔ یہ غصے کا زہری دو چار من کا بوجھل پتھر تواٹھاسکتا ہے۔ ذراسی بات برداشت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت طاقتور وہی ہے جو قوت برداشت رکھتا ہے۔ متحمل مزاجی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ حقارت ایک بادشاہ درویشوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتاتھا۔ ایک نڈر درویش نے اس سے کہا ”اے بادشاہ! ہم اس دنیا میں عیش میں تجھ سے زیادہ خوش ہیں۔ تیرے پاس لشکر ہے خزانہ ہے اور ہمارے پاس قناعت ہے۔
اس لحاظ سے ہم لوگ تجھ سے کم ترہیں لیکن مرنے میں برابر ہیں۔ ہماری طرح تجھے بھی موت ا?ئے گی اور ہم قیامت کے دن تم سے بہتر ہوں گے پھر یہ حقارت کس بات کی؟” درویش کی باتوں کا بادشاہ کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ وہ دل ہی دل میں بڑا شر مندہ ہوا اور آئندہ کبھی کسی درویش کوحقارت سے نہ دیکھا۔ سخاوت کا درجہ ایک عقل مند سے دریافت کیاگیا کہ سخاوت اوربہادری میں کونسی چیز بہترہے؟ اس نے جواب دیا ”جس میں سخاوت ہے، اس کوشجاعت کی ضرورت نہیں۔”
دولت اور قناعت افریقہ کا رہنے والا ایک بھکاری حلب کے بازاروں میں کہہ رہا تھا ”اے دولت مندو! اگر تم میںانصاف ہوتااور ہم میں قناعت ہوتی تو سوال کا رواج دنیا سے ختم ہوجاتا۔ کوئی کسی سے سوال نہ کرتا۔ نہ کوئی حاجت مند ہوتا اورنہ کوئی حاجت روا ہوتا۔” شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ صاحب ثروت کو حاجت مند کوسوال کرنے سے پہلے دینا چاہئے اور حاجت مند کو قناعت سے کام لینا چاہئے۔ قناعت کی بڑی فضیلت ہے۔