تحریر : اشفاق راجا پاکستان کی ریاست حیدر آباد دکن کے کیس میں برطانوی ہائیکورٹ سے 68ء سال بعد سرخروئی اور بھارتی ہزیمت پاکستان نے برطانوی ہائیکورٹ سے بھارت کیخلاف 68ء سال بعد حیدر آباد دکن فنڈ کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ جس کی بنیاد پر پاکستان کو 35 ملین پائونڈ ملیں گے۔ دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق برطانوی ہائیکورٹ نے حیدر آباد دکن فنڈ پر پاکستان کے دعوے کیخلاف بھارتی موقف مسترد کر دیا ہے۔ منگل کے روز 75 صفحات پر مشتمل برطانوی ہائیکورٹ کے جسٹس ہینڈرسن کے صادر کئے گئے فیصلہ میں پاکستان کے اصولی موقف کی تصدیق کی گئی ہے کہ 20 ستمبر 1948ء کو پاکستان کے ہائی کمشنر کے نام پر بنک میں رکھوائے گئے 35 ملین پائونڈ پاکستان ہی کی ملکیت ہیں۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ متذکرہ رقم پر پاکستان کے دعویٰ کی حمایت میں مضبوط شہادت موجود ہے جس کو باقاعدہ ٹرائل کے دوران پوری طرح زیر غور لایا جائے گا۔ اس دعوے کے خلاف بھارتی درخواستیں مسترد ہونے سے اب بھارت کو کیس کے بھاری اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔ برطانوی جج ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ کیس دائر کئے جانے کے وقت ریاست حیدر آباد دکن کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت نے اس ریاست پر بزور قبضہ جمانے کیلئے اپنی افواج کو متحرک کیا تو اس وقت نظام حیدر آباد دکن نے پاکستان کو مدد کیلئے بلایا جس کے عوض اس وقت 1.007.940 پائونڈ 9 شیلنگ کی رقم پاکستان کے حوالے کی گئی جو پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ نے پاکستانی ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے نام بنک میں جمع کرا دی تھی۔ یہ رقم اب بڑھ کر تین کروڑ 50 لاکھ پائونڈ ہو چکی ہے۔ بھارت نے ریاست حیدر آباد دکن پر فوج کے ذریعے قابض ہونے کے بعد نظام حیدر آباد دکن کے ذریعے متذکرہ رقم کی بھارت کو منتقلی کیلئے برطانوی عدالت میں دعویٰ دائر کرایا تھا جس پر پاکستان نے اس رقم پر اپنے دعوے کا کیس دائر کیا۔ اب 68ء سال بعد برطانوی ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ چونکہ بھارت نے حیدر آباد دکن پر قبضہ کر لیا تھا اور نظام حیدر دکن کو اپنے اختیارات زبردستی بھارت کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا تھا اس لئے اس صورت حال میں نظام حیدر آباد دکن سے اپنی آزادانہ خواہش کی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ نظام حیدر آباد دکن نے پاکستانی ہائی کمشنر کے نام جمع رقم کی بھارت کو منتقلی کا دعویٰ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ بھارتی ایماء پر دائر کیا تھا۔
برطانوی ہائیکورٹ نے اگرچہ اس کیس کا فیصلہ 68ء سال بعد صادر کیا ہے جو ”انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے” کی ضرب المثل کا عملی ثبوت ہے اور بیشک اس فیصلہ کی روشنی میں اب جہاں بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑے گی وہیں پاکستان کو سرخروئی کے ساتھ 35 ملین پائونڈ بھی مل جائیں گے مگر اس کیس کا فیصلہ 1948ء میں ہی ہو جاتا تو ممکن ہے اس وقت ریاست حیدر آباد دکن کو اپنے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کیساتھ الحاق کے معاملہ میں آزادانہ طور پر فیصلہ کرنیکا موقع بھی مل جاتا۔ نظام حیدر آباد دکن نے اگر اپنی آزاد ریاست پر بھارتی قبضہ نہ ہونے دینے کیلئے پاکستان کی امداد طلب کی تھی تو اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نظام حیدر آباد دکن اپنی ریاست کا بھارت کیساتھ ہرگز الحاق نہیں چاہتے تھے۔
Kashmir Violence
مگر بھارت نے فوجی چڑھائی کر کے اس ریاست پر زبردستی اپنا تسلط جمایا جس کے بعد اس نے آزاد ریاست جموں و کشمیر پر بھی فوجی چڑھائی کی اور اس کے بڑے حصے پر جبراً اپنا تسلط جمایا جو آج کے دن تک برقرار ہے۔ برطانوی عدالت نظام حیدر آباد دکن کیس کا اسی وقت فیصلہ صادر کر دیتی تو ممکن ہے بھارت کو پھر کشمیر میں اپنی افواج بھجوانے کی جرآت نہ ہوتی۔ تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اب دنیا کو اس فیصلہ کی بنیاد پر اس امر سے تو آگاہی ہو گئی ہے کہ بھارت نے تقسیم ہند کے بعد ریاست حیدر آباد دکن ہی نہیں، وادی کشمیر پر بھی بزور اپنا تسلط جمایا تھا۔ اس تناظر میں اب پاکستان کے کشمیر کاز کو مزید تقویت حاصل ہو گئی ہے جس کی بنیاد پر اب کشمیری عوام کے استصواب کے حق کا ایشو اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں پر زیادہ شدت سے اٹھایا جا سکتا ہے اور اس کیلئے عالمی برادری کو بھارت پر دبائو ڈالنے کیلئے قائل کیا جا سکتا ہے۔ 68ء سال بعد اس کیس کا فیصلہ صادر ہونے سے اب تقسیم ہند کے فارمولے پر بھی ازسر نوبات ہو سکتی ہے جس سے بھارت نے انحراف کیا او رکشمیر اور حیدر آباد دکن پر بزور اپنا تسلط جمایا۔
تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ آزاد ریاستوں جونا گڑھ، مناداور، حیدر آباد دکن اور جموں و کشمیر کے والیان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرتے ہیں جبکہ اس فارمولے میں یہ گائیڈ لائن بھی دے دی گئی تھی کہ مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست پاکستان کے ساتھ اور ہندو اکثریتی آبادی والی ریاست بھارت کے ساتھ الحاق کر لے۔ اس فارمولے کے تحت جموں و کشمیر اور حیدر آباد دکن کا پاکستان کے ساتھ الحاق نوشتہ دیوار تھا کیونکہ کشمیری لیڈروں اور عوام نے تقسیم ہند سے بہت پہلے اپنے ایک نمائندہ اجتماع میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا جبکہ مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر بھی جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہونا تھا۔ یہی پوزیشن ریاست حیدر آباد دکن کی تھی جہاں مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ نظام حیدر آباد دکن ممکنہ بھارتی قبضہ کے خلاف پاکستان کی امداد طلب کر کے اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔
اگر تقسیم ہند کے وقت بھارت اس معاملہ میں ڈنڈی نہ مارتا تو مسلم اکثریتی آبادی والی متذکرہ دونوں خودمختار ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہوتا مگر بھارت نے ہندو اکثریتی آبادی والی ریاستوں جوناگڑھ اور مناداور کو تو تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق اپنے ساتھ ملحق کر لیا جبکہ حیدر آباد دکن پر اس نے فوجی یلغار کر کے اسے جبراً اپنا حصہ بنا لیا اور پھر یہی ایکسر سائز اس نے ریاست جموں و کشمیر پر کی اور اس کے جموں اور لداخ کے حصے پر جبراً اپنا تسلط جما لیا۔یہی وہ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم تھے جن کی بنیاد پر بھارتی لیڈران نے پاکستان کی تشکیل کو بھی بادل نخواستہ قبول کیا تھا مگر انہوں نے شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اپنے ایجنڈے کا حصہ بنا لیا اور اسی ایجنڈے کے تحت بھارت نے کشمیر پر بزور تسلط جمایا کیونکہ بھارتی لیڈران کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن گیا تو پھر اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے والے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اسی تصور کے تحت بھارت نے کشمیر پر اپنا تسلط جما کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کر کے اسے باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔
Indian Army
ریاست حیدر آباد دکن کے نظام اور عوام نے تو طوحاً و کرہاً بھارتی تسلط کو قبول کر لیا اور یہ ریاست بھارت کا حصہ بن گئی مگر کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے آزادی کی ٹھان لی جنہوں نے آج تک اپنی ریاست پر بھارتی فوجی تسلط کو قبول کیا ہے نہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی اور حکمرانوں کو کبھی تسلیم کیا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کا یہی کیس ہے کہ یہ بھارت کا حصہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا تعین اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیری عوام نے استصواب کے حق کی بنیاد پر خود کرنا ہے۔ اس اصول کے تحت پاکستان نے آزاد کشمیر کو اپنی ریاست کا درجہ نہیں دیا اور اس کی آزاد حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہد کا سفارتی سطح پر مکمل ساتھ دے رہا ہے۔
کشمیری عوام نے کثیر جانی اور مالی قربانیاں دے کر 68ء سال سے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اور کسی ترغیب و تخویف کی بنیاد پر ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوئی چنانچہ آج اس جدوجہد کی بنیاد پر پوری دنیا اور تمام عالمی ادارے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ اب جبکہ برطانوی ہائیکورٹ کے فیصلہ کے تحت اس امر پر بھی مہر تصدیق ثبت ہو گئی ہے کہ بھارت نے ریاست حیدر آباد دکن پر بزور قبضہ کیا تھا اس لئے اب کشمیر پر بھارتی بزور قبضہ کا معاملہ بھی دنیا کے سامنے اجاگر کیا جا سکتا ہے جس سے کشمیری عوام کی بھارتی تسلط سے آزادی کی منزل اور بھی قریب آجائے گی۔
اس تناظر میں برطانوی ہائیکورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے جس سے کشمیر پر بھارتی تسلط کے خلاف ہمارے موقف کو بھی تقویت حاصل ہوئی ہے اس لئے اب ہمیں اپنے سفارتی محاذ کوفعال کر کے مسئلہ کشمیر یو این قرار دادوں کے مطابق حل کیلئے زور لگانا چاہئیے۔ اگر آج بھارت کو جبراً ہڑپ کی گئی ریاست حیدر آباد دکن کے معاملہ میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے تو عالمی دبائو بڑھنے سے وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط ختم کرنے اور کشمیری عوام کو استصواب کا حق دینے پر بھی مجبور ہو سکتا ہے۔