تحریر: سید توقیر زیدی ڈائریکٹر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ گزشتہ دِنوں بھارتی جاسوسوں کا ایک گروہ پکڑا گیا ہے، جس میں شامل لوگ یہاں کی معلومات لے اور دے رہے تھے یہ گروہ دہشت گردی کی کارروائیاں کروا رہا تھا اور پیسے تقسیم کر رہا تھا، اِس سے پہلے بھارتی نیوی سے تعلق رکھنے والا ایک افسر بھی جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہو چکا ہے، جس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تعمیر کے منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کے لئے مامور کیا گیا تھا اور اس نے یہاں اپنا نیٹ ورک بھی بنا رکھا تھا، جس کے ذریعے اس نے مقامی ایجنٹ بھی بھرتی کر رکھے تھے اب جو گروہ پکڑا گیا ہے وہ بھی مقامی لوگوں میں رقوم تقسیم کر رہا تھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے مقاصد کیا ہیں۔بھارت قیام پاکستان کے ساتھ ہی نئے مْلک کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو گیا تھا، پھر یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے اِس حد تک پہنچا کہ اْس نے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی میں شریک باغیوں کی ہر طرح سے حمایت کی، انہیں اسلحہ اور تربیت فراہم کی، نہ صرف بنگال کے ان باغیوں کو، بلکہ ان کے پردے میں مغربی بنگال کے تربیت یافتہ افراد کو بھی مشرقی پاکستان میں داخل کیا، جنہوں نے ذرائع رسل و رسائل اور مواصلات کو تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا، بعد میں بھارت نے پاکستان پر کھلے عام حملہ کر دیا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کیا۔
نریندر مودی نے ڈھاکا میں تقریر کرتے ہوئے نہ صرف بھارت کے اس منفی کردار کی تعریف کی تھی، بلکہ یہ انکشاف کیا تھا کہ ”بنگلہ دیش کی آزادی” کی جنگ میں وہ بنگالی عوام کی حمایت میں بطور رضا کار شریک رہے ہیں اب ایک مْلک کا وزیراعظم اگر کھل کر اپنے کردار سے خود ہی پردہ اْٹھا رہا ہے تو عالمی قوانین کے تحت اْسے مجرم قرار دینے میں کیا امر مانع ہے؟ اور کیا جنگی قوانین کے تحت بھارت پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، بنگلہ دیش کی حکومت اِسی عرصے میں اپنے مْلک کی سلامتی کی خاطر لڑنے والوں کو غدار قرار دے کر پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے، تو بھارت کے خلاف تو پاکستان کا کیس اِس لحاظ سے بہت مضبوط ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی خود اعترافِ جرم کر رہا ہے۔ بھارت کے اب تک پاکستان کے خلاف کئے جانے والے اقدامات سے بھی یہ بات الم نشرح ہو جاتی ہے کہ اْس نے قدم قدم پر پاکستان کو ناکام بنانے اور مشکلات سے دوچار کرنے کی کوشش کی، پہلے تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی اْس کے اثاثے اور نقد رقوم روک لیں۔ پاکستان کا مقدمہ اِس حد تک جائز تھا کہ بھارتی ہندوؤں کے باپو مہاتما گاندھی نے اِس مقصد کے لئے مرن برت رکھا۔ اس کے بعد بھارتی قیادت نے اثاثوں کی حوالگی کے ضمن میں طوعاً و کرہاً بعض اقدامات کئے،ان تمام اقدامات کا مطلب پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا، شروع شروع میں بھارتی شیخ چلیوں کا خیال تھا کہ پاکستان جلد ہی ناکام ہو جائے گا اور بھارت کے پاؤں پڑ کر دوبارہ متحدہ ہندوستان میں ضم ہونے کی خواہش کرے گا، لیکن یہ خواب و خواہش ہی رہی۔ پاکستان تمام تر مشکلات اور چیلنجوں کے باوجود مسلسل آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔
Liaquat Ali Khan
وزیراعظم لیاقت علی خان کے پہلے ہی بجٹ نے بھارت کے نام نہاد حساب دانوں کے ہوش اْڑا دیئے، جن کا خیال تھا کہ اچھا بجٹ صرف بنیا بنا سکتا ہے، پھر 1998ء میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں، لیکن پاکستان کے جوابی دھماکوں کے بعد بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے اْس وقت سے لے کر اب یہ ایٹمی ڈیٹرنس بھارت کو ایڈونچر سے باز رکھے ہوئے ہیں اِس لئے بھارت نے براہِ راست اقدامات کا راستہ بدل کر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کے لئے جاسوسی کا جال پھیلا دیا ہے۔”را” کے ایجنٹوں نے اپنی سرگرمیوں کا محور بلوچستان اور کراچی کو بنا رکھا ہے۔ کلبھوشن یادیو اور اب جاسوسوں کے پورے گروہ کی گرفتاری پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کا کھلا ثبوت ہے۔ بھارت کو یہ معلوم ہو ہی چکا ہے کہ پاکستان اس کے مقابلے کی ایٹمی قوت ہے اور اپنے دفاع میں جدید اسلحے میں خود کفیل ہے، اِس لئے بھارت اب فوجی مہم جوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ1971ء نہیں جب بھارت کو اس میں کامیابی ہو گئی تھی، اِس لئے اب اس نے اپنا طریقہ کار بدل لیا ہے اور پاکستان سے ناراض بعض حلقوں کو نواز کر اْن سے تخریب کاری کا کام لے رہا ہے، لیکن اب جس انداز میں اس کے جاسوسوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ اس کا یہ حربہ بھی کامیاب نہیں ہونے والا، اِس مقصد کے لئے اْس نے افغانستان کا تعاون بھی حاصل کیا گیا ہے، افغان جاسوس بھی بلوچستان میں پکڑے گئے ہیں اور چند روز سے طور خم سرحد کو گرم کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے، اس میں بھی بھارتی ہاتھ نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ اس سارے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارتی اور افغان جاسوسوں کی سرگرمیوں سے اْن کے عزائم واضح ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی کہ بلوچستان کے گمراہ عناصر کس کے اشارے پر تخریبی کارروائیاں کر رہے تھے، لیکن سالہا سال کی گمراہی کے بعد اب انہیں بھی احساس ہونے لگا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اْٹھانے سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا اْن کی اگر کوئی جائز شکایات ہیں تو مین سٹریم میں رہ کر ہی اْن کے ازالے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے قوم سے کٹ کر کی جانے والی مسلح جدوجہد کبھی کامیاب نہیں رہی۔ سالہا سال بلکہ عشروں تک لڑنے والوں کو بھی بالآخر ہتھیار رکھ کر مذاکرات کرنے پڑے۔ بلوچستان میں یہ احساس جاگزین ہونا شروع ہو گیا ہے کہ مسلح جدوجہد تضیع اوقات ہے اور اگر بھارت نے اِن عناصر کو یہ راہ دکھائی تھی، تو اس میں کامیابی کا امکان نہیں، اِس لئے تمام مسلح افراد اور تنظیموں کو ہتھیار چھوڑ کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ بھارت بھی جتنی جلد ممکن ہو اپنے جاسوسوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لے، کیونکہ پے در پے گرفتاریوں سے اب اْن کے لئے نیٹ ورک کی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ بھارت کو چاہئے کہ اچھے ہمسایوں کی طرح پاکستان کے ساتھ رہے اور درپردہ سازشوں سے باز آ جائے۔