تحریر: حفیظ خٹک شہر قائد میں رہائشی علاقوں کے مکانات و اپارٹمنٹس میں رہنے والے متعدد افراد کے پاس اپنی گاڑیاں ، موٹرسائکلیں ہوتی ہیں۔ جو ان کی ذرائع آمدورفت کیلئے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ دو کڑور کی آبادی کے اس شہر میں شاہراہوں پر ٹریفک کا بے پناہ ہجوم اب اک عام سی بات ہوگئی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد میں کمی جہاں تک ٹریفک کے اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے وہیں پر شاہراہوں کی تنگی ، عمارتوں کی کثرت ، پیدل چلنے والوں کیلئے جگہوں کی بندش اور کثیر تعداد میں خریداری کے مراکز بھی چیدہ وجوہات ہیں۔
ماہ رمضان میں نیکیوں کا موسم بہار ہر سو دیکھائی دیتا ہے یہ موسم نیکوکاروں کے ساتھ ذرائع ابلاغ کیلئے اہمیت کا حامل بن جاتا ہے ، انتہائے سحر و افظار کے پروگرامات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ، کاروباری انداز میں اسے منانے کے ساتھ دین کو اپنے تئیں سمجھانے کی بھی کاوشیں ہوتی ہیں۔ دوپہر دو بجے سے افطار اور شب دو بجے سے سحر کے پروگرام کا آغاز ہوجاتا ہے، میزبانوں کو بتائے گئے ہدایات کے مطابق اپنی نوعیت کا پروگرام کرنے کے احکامات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ شہر قائد میں اس دوران رونما ہونے والے اور عام مسائل کی جانب ان کی نہ تو کوئی توجہ ہوتی ہے اور نہ انہیں ان سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ عوام کی جانب سے اگر پیمرا پر کسی بھی چینل کے خلاف شکایاتوں کے انبار لگ جاتے ہیں اور پیمرا اس پروگرا م پر تین دنوں کی پابندی بھی لگادیتی ہے تو اس صورتحال میں عدالت کی جانب سے یہ حکم آجاتا ہے کہ پابندی درست نہیں لہذا پروگرام کو جاری رکھا جائے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد شکایت کنندگان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں کسی ٹی وی پروگرام کی شکایت پیمرا سے کرنی چاہئے یا کہ براہ راست عدالت کے در پر جانا چاہئے۔
Beggars
ماہ رمضان میں شہر قائد کے اندر امداد مانگنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد امڈ آتی ہے وہ بڑے پلوں کے نیچے ، تفریح گاہوں اور خالی جگہوں پر اپنی رہائش کا اہتمام کرتے ہیں اور صبح و شام ، دن و رات میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ سابق ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے اپنے دور میں مانگنے والوں کے خلاف پابندی عائد کر کے ان کی جانب سے شہریوں کو ملنے والی مشکلا ت پر قابو پانے کی کوشش کی تھی ۔تاہم اس کے بعد سے اب تک اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔
ان دنوں ایک اور مسئلہ ایسا ہے جس کی جانب توجہ کم ہی مبذول ہوتی ہے اور توجہ اگر مقامی پولیس کو شکایت کے ذریعے دلائی بھی جائے تو اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی قانون نہیں ہے۔ ان مسائل کو اجاگر کرنے والوں اور ان سے مستفید ہونے والوں کے خلاف پولیس کوئی مقدمہ درج نہیں کرتی ۔ جس سے شکایت کنندگان کو ہی ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ رہائشی اپارٹمنٹس کے ساتھ عام کالونیوں میں موٹر سائکلوں اور گاڑیان جہاں کھڑی کر دی جاتی ہیں وہاں پر چوری کی کثرت سے وارداتیں ہوتی ہیں اور یہ چوری بھی گاڑیوں کی بیٹریوں ، اگلے دروازوں پر قائم پیچھے کی جانب کی صورتحال کا جائز ہ لینے کیلئے قائم شیشوں کی بھی ہوتی ہیں ۔ موٹر سائکلوں سے پٹرول ، پلگ، آئل اور ان پر موجود چادریں تک اڑا لی جاتی ہیں۔ یہ وارداتیں ان مقامات پر زیادہ ہوتی ہیں جہاں پر کوئی پہرہ دار نہیں ہوتا ، بعض علاقوں میں تو پہرہ داروں کی موجودگی میں یہ وارداتیں ہوجاتی ہیں ، چوکیداروں کے ساتھ تشدد تک کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔
Crimes
اس پلازے یا رہائشی کالونی کی یونین قانونی اقدام کی جانب کم ہی جاتی ہے اور اس طرح جس فرد کی گاڑی یا موٹر سائکل کے ساتھ یہ واقعہ رونما ہوا ہوتا ہے اسے ازخود پولیس تک جانا پڑتا ہے یا پھر دل پر پتھر رکھ کر یہ نقصان ازخود اٹھانا پڑتا ہے۔ اس نقصان کے بعد کی صورتحال ہر نقصان زدہ کی مختلف ہی ہوتی ہے۔ کچھ شہریوں کیلئے یہ چوری کوئی بڑی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی ، کچھ لوگ بازار جاکر اس نقصان کو ویسا ہی ایک شیشہ لے کر دوبارہ لگالیتے ہیں اور اس طرح سے ان کے نقصان کی تلافی ان ہی کے ہاتھوں ہوجاتی ہے۔ جب کہ وہ شہری جو معاشی طور کمزور ہوتے ہیں ان کیلئے یہ مرحلہ مشکل ترین معاملہ بن جاتا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ جب گاڑی مالک نئی چیز لینے بازار گیا تو اسے اپنی ہی گاڑی کی وہ چیز مل گئی لیکن اس کے لئے انہیں اضافی پیسے دینے پڑے ۔ کئی گاڑی مالکان نے اس حوالے سے یہ تفصیلات بتائی ہیں کہ انہیں یہ بتایا گیا کہ نئے ماڈل کی بہترین گاڑی وہ شیشہ جس کی مارکیٹ میں مالیت 70ہزار روپے ہوتی ہے ۔چور حضرا ت وہ شیشہ اپنی مرضی کی قیمت کے مطابق اسے مخصوص بازاروں میں بیچ کر چلے جاتے ہیں۔
ان بازاروں میں گاہکوں کو بسا اوقات اپنے ہی شیشے دوبارہ خریدنے پڑجاتے ہیں ۔موٹرسائکل مالکان کو جو نقصانات ہوتے ہیں ان کی مالیت گو کہ کم ہوتی ہے لیکن ان کیلئے وہ لمحات نہایت ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ ڈیوٹی پر جانے کیلئے جب وہ گھر سے نکل کر موٹر سائکل کے پاس پہنچتے ہیں تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی موٹر سائکل میں پٹرول ہی نہیں ، پلگ یا کوئی اور اہم کی حامل شے نہیں ۔ اس وقت ان کے پا س نہ تو محافظوں سے الجھنے کا وقت ہوتا ہے او ر نہ ہی اس مسئلے کا کوئی اور حل اس بات کے علاو ہ ہوتا ہے کہ دفتر جانے سے قبل اپنے اس نقصان کو پورا کریں اور پھر دیر سے دفتر پہنچیں۔
Guards
اس طرح کے مسائل سے نکلنے اور بچنے کیلئے کئی مکانوں کے مالکان یا اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر گاڑی مالکان مل کر محافظ رکھ لیتے ہیں یا پھر پہلے سے موجود محافظ کو اضافی رقم کے عیوض ان کی ذمہ داریوں میں اس ذمہ داری کا بھی اضافہ کر دیتے ہیں شہر قائد سمیت ملک کے کسی بھی شہر وقصبے میں اس نوعیت کے معاملات درپیش آتے رہتے ہیں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر پلازوں اور کالونیوں کی یونین مل کر مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے اس طرح کے جرائم پر قابو پانے کیلئے عملی اقدامات کر سکتے ہیں، اس کے نتیجے میں اطمینان و سکون کے ساتھ مثبت اثرات مرتب ہونگے۔