کیمرون کی جگہ نیا لیڈر

David Cameron

David Cameron

تحریر: سید توقیر زیدی
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ 26 لاکھ برطانوی شہریوں نے اس مقصد کیلئے سرکاری ویب سائٹ پر دستخطی مہم چلائی۔ ان شہریوں کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے فیصلے میں جیتنے کیلئے اگر 60 فیصد سے کم ووٹ پڑیں یا ٹرن آؤٹ 75 فیصد سے کم رہے تو دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے تاہم ڈیوڈ کیمرون نے جو جمعہ کو ریفرنڈم کے نتائج آنے پر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے تھے اس مطالبے کو منظور نہیں کیا۔ وزیراعظم نے تو خیر شکست تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی اور مستعفی ہوگئے لیکن حزب مخالف کی جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن سے بھی استعفا کا مطالبہ ہو رہا ہے اور پارٹی میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ کوربن گزشتہ برس بڑے طمطراق سے لیبر پارٹی کی قیادت پر فائز ہوئے تھے۔ برطانیہ میں روایت ہے کہ الیکشن ہارنے والی جماعت کا لیڈر شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب سے الگ ہوجاتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے اسی روایت کو آگے بڑھایا حالانکہ انہیں براہ راست پارلیمنٹ کے انتخابات میں کوئی ناکامی نہیں ہوئی۔

جہاں نہ صرف ٹوری پارٹی کی اکثریت (330 ارکان) قائم ہے بلکہ یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جا رہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اپنے ووٹروں سے کٹ چکے ورنہ ریفرنڈم کا نتیجہ حق میں آنا چاہئے تھا۔ برسر اقتدار ٹوری پارٹی کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم بورس جانسن کا نام لیا جا رہا ہے جو دو مرتبہ لندن کے میئر رہ چکے وہ کیمرون کے قریبی ساتھی تھے۔ لیکن یورپی یونین کے معاملے پر وہ وزیراعظم کے مخالف نقطہ نظر کا پرچارک کرنے لگے، اب جبکہ ریفرنڈم کا فیصلہ یورپی یونین میں رہنے کے خلاف آگیا ہے اور برطانیہ کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو علیحدگی کے مراحل طے کرنے کیلئے یورپی یونین سے مذاکرات کرے کیونکہ یہ دو برسوں پر محیط ایک طویل عمل ہوگا۔ تاہم بورس جانسن کے مخالفین بھی سرگرم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے رہنما (مائنس بورس) کو قبول کرلیں گے۔

Tory Party

Tory Party

ابھی اکتوبر تک تو ڈیوڈ کیمرون ہی وزیراعظم رہیں گے اس وقت ٹوری پارٹی کی کانفرنس میں طے ہوگا کہ نئے لیڈر کا تاج کس کے سر پر سجنا ہے۔ یہ تو حکمران جماعت کا حال ہے، لیبر پارٹی اس سے زیادہ مشکل حالات میں پھنس گئی ہے اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کے استعفے کا مطالبہ بھی ہونے لگا ہے۔ یہ مطالبہ کرنے والوں میں لیبر ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کے ایک گروپ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کرکے مطالبہ کیا ”جیریمی کوربن کو بھی استعفا دینا چاہئے”۔
یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں آنے والے فیصلے نے بطور مجموعی پورے برطانیہ کو متاثر کیا ہے اور دونوں بڑی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہیں اور دونوں کو نئی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، دونوں جماعتوں میں اس معاملے پر اتفاق نہیں اختلاف رائے تھا۔ بعض ارکان نکلنے کے حامی تھے تو بعض دوسرے رہنے کے حق میں رائے رکھتے تھے، اس لئے اب جو فیصلہ آیا ہے اس کے باعث دونوں جماعتوں کو ہی بحران درپیش ہے۔

ڈیوڈ کیمرون تو بہت پہلے کہہ چکے تھے کہ وہ 2020ء کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے پارٹی قیادت چھوڑ دیں گے لیکن اب ریفرنڈم کے نتیجے نے چار سال قبل ہی انہیں وزارت عظمیٰ اور پارٹی کی رہنمائی چھوڑ دینے پر مجبور کردیا ہے۔ کیمرون پہلی مرتبہ 2010ء میں وزیراعظم بنے تھے اور دو سو سال میں برطانیہ کے کم عمر ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ گزشتہ برس (2015ء ) ان کی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے۔ پارلیمنٹ میں ٹوری پارٹی کے ارکان کی تعداد 330 ہے جن میں سے 128 ارکان نے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ ڈالا۔ اس وقت ان کی جماعت میں تقسیم بہت واضح ہے اور بورس جانسن کے علاوہ جو رہنما ان کی جگہ لے سکتے ہیں ان میں وزیر انصاف مائیکل گوو، وزیر داخلہ تھریسا مے اور وزیر خزانہ جارج اوسبورن شامل ہیں۔ نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے پہلے مرحلے میں کنزرویٹو ارکان پارلیمنٹ دو لیڈروں کا انتخاب کریں گے جس کی توثیق پارٹی کے ڈیڑھ لاکھ ارکان کریں گے اور ان دو میں سے کسی ایک کو وزیراعظم منتخب کرلیا جائے گا۔

Scotland

Scotland

وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے دوبارہ ریفرنڈم کا جو مطالبہ مسترد کیا ہے وہ سرکاری ویب سائٹ پر 32 لاکھ دستخطوں سے کیا گیا تھا تاہم اس میں 70 ہزار افراد کے نام خارج کردیئے گئے جو دھوکہ دہی سے دوبارہ شامل کرلئے گئے تھے۔ ارکان پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی اس مطالبے کا جائزہ لے گی۔
سکاٹ لینڈ کے 62 فیصد لوگوں نے حالیہ ریفرنڈم میں یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ سکائش باشندوں کی رائے کے برعکس یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو سکاٹ لینڈ کو بھی ایک اور آزادی ریفرنڈم کرانے کی اجازت دی جائے۔ 2014ء میں سکاٹ لینڈ میں جو ریفرنڈم ہوا تھا اس میں 55 فیصد سکاٹش باشندوں نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب دو برس بعد ہی دوبارہ ریفرنڈم کے مطالبے اس لئے سامنے آنے لگے ہیں کیونکہ رائے عامہ کے دو جائزوں کے مطابق 59 فیصد اور52 فیصد لوگوں نے برطانیہ سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

سکاٹش نیشنل پارٹی کی رہنما اور فرسٹ منسٹر نکولاسٹر جن نے کہا کہ 2014ء میں سکاٹ لینڈ نے جس برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا تھا یہ وہ برطانیہ نہیں ہے اس لئے اب سکاٹ لینڈ کو ایک اور ریفرنڈم کا موقع دینا چاہئے۔ انہوں نے یہ کوشش بھی کی کہ اگر برطانیہ یورپی یونین میں نہیں رہتا تو بھی سکاٹ لینڈ کو اس میں شامل رہنے کی اجازت ہونی چاہئے لیکن یورپی یونین نے اس خیال کی حمایت نہیں کی، اب نکولاسٹرجن کا خیال ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سکاٹش عوام کو ایک اور ریفرنڈم میں یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔۔؟
لیبر پارٹی میں اختلافات کی خلیج وسیع ہوگئی ہے شیڈو کابینہ کے ایک وزیر ہیلری بن کی برطرفی کے بعد تین ارکان مستعفی ہوگئے ہیں۔ ہیلری بن پر الزام ہے کہ وہ جیریمی کوربن کو قیادت سے ہٹانے کیلئے سرگرم ہوگئے تھے جس پر انہیں شیڈو کابینہ کے وزیر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر لیبر پارٹی اسی صورت حال سے دوچار رہی تو اس کیلئے 2020ء کا الیکشن جیتنا بھی مشکل ہو جائے گا جو وقت سے پہلے بھی ہوسکتا ہے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر: سید توقیر زیدی