تحریر: سید انور محمود کراچی کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے، جہاں امن و امان کی صورت حال اکثر خراب رہتی ہے۔ اس شہر میں مذہب کے نام پر خونریزی کرنے والے دہشت گردوں، فرقہ پرستی، لسانی اختلافات کو ہوا دینے والی تنظیموں اور مجرموں کے منظم گروہوں کی وجہ سے مسلسل خونریزی دیکھنے میں آتی ہے۔ وفاقی حکومت نے چار ستمبر 2013ء کو کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کراچی آپریشن کے بعد کراچی کے جرائم میں کمی آئی اور گذشتہ چند مہینوں سے کراچی میں قدرے سکون دیکھا جا رہا تھا، لیکن شاید ابھی کراچی والوں سے مستقل سکون روٹھا ہواہے۔ 20 جون 2016 کی دوپہر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو مسلح افراد نے کلفٹن کی ایک سوپر مارکیٹ کے باہر سے اغوا کر لیا، دو دن بعد 22 جون کو معروف قوال امجد صابری کو ان کے گھر کے قریب لیاقت آباد کے پرہجوم علاقے میں سفر کے دوران ان کی گاڑی پر فائرنگ کرکے ان کو قتل کردیا۔ دونوں واقعات علیدہ علیدہ ہوئے ہیں لیکن ایک چیز مشترک ہے کہ ان دونوں واقعات میں دہشت گرد ملوث ہیں۔
امجد صابری کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کے ایک دہشت گرد گروپ نے قبول کرلی ہے جس کا سیدھا سیدھا مقصد خوف و ہراس پھیلانا تھا ، جبکہ چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ عسکریت پسند اغوا کار ممکنہ طور پر مغوی کی رہائی کے لیے سودے بازی کرنا چاہیں گے اور چیف جسٹس کے بیٹے کی رہائی کے بدلے میں اپنے زیرحراست دہشت گرد ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرینگے، دہشت گردوں سےتین سال بعد رہائی پانے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹےعلی حیدر گیلانی کا کہنا ہے کہ ’’القاعدہ میرے بدلے میں ڈاکٹر ایمن الظواہری کے خاندان کی چند قید خواتین کی رہائی اور بھاری رقم کا تقاضا کررہی تھی‘‘۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغوا اور امجد صابری کے قتل، دونوں واقعات نے پاک فوج کی طرف سے کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن کراچی کو شدید نقصان پہنچایا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ آرمی چیف اور وزیر داخلہ ساتھ ساتھ کراچی پہنچے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کراچی میں امن کی مکمل بحالی تک آپریشن جاری رہے گا۔آرمی چیف کا کہنا ہے رینجرز کو مشن مکمل کرنے کیلئے انٹیلی جنس اور ضروری آلات فراہم کئے جائیں گے۔
National Action Plan
آرمی چیف کے مطابق وہ کراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلا کر دم لیں گے، تاہم تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ کام امن عامہ سے متعلق صوبائی اداروں کی تنظیم نو کے بغیر ناممکن نہیں تو قدرے مشکل ضرور ہے۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں کراچی میں پیدا ہونے والا امن آہستہ آہستہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور دہشت گردوں کے گروہ دوبارہ سرگرم ہوتے نظر آرہے ہیں۔آپریشن کی کامیابی کو طویل المدتی بنانے کے لیے پولیس کو دوبارہ ایک فعال ادارہ بنانا ہوگا اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ امن کی جزوی بحالی ہوتے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے توجہ کرپشن کی سرکوبی سمیت دیگر امور پر مرکوز کرلی، سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی طرز پربیان بازی شروع کردی، نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردودں کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع مل گیا اور اس بار انہوں نے دو ایسے وار کیے کہ تین سال کی محنت کے بعد شہر میں ختم ہوتی خوف کی فضا یک دم دوبارہ قائم ہوتی دکھائی دینے لگی۔
آرمی چیف کے ساتھ کراچی پہنچنے والےوفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گورنر سندھ کے ہمراہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ اور مقتول امجد صابری کی رہائش گاہوں پر جاکران سے ملاقات کیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں ان دونوں ملاقاتوں کے دوران چوہدری نثار علی خان خالی ہاتھ دکھائی دیے اور ان کے پاس سوائے دلاسوں اور تسلیوں کے کچھ نہیں تھا۔اگر ان ملاقاتوں کا مقصد کراچی میں بحالیٴ امن کی کوششوں کےلیے وفاقی حکومت کا عزم اور صوبائی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی تھا تو چوہدری نثار کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ کو اس دورے میں وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیے تھا۔ سندھ حکومت پہلے ہی پولیس کو درپیش فنی مسائل کے حوالے سے وفاقی حکومت کے رویے پر بھی شاکی ہے۔ وزیر داخلہ سہیل انور سیال الزام عائد کر چکے ہیں کہ وفاقی حکومت کے عدم تعاون کے باعث سندھ پولیس فنی اعتبار سے بیس برس پیچھے ہے، آئی جی سندھ نے بتایا کہ شہر میں پولیس کنٹرول کے967، کے ایم سی کے1400اور ٹریفک پولیس کے 100 کیمرے لگے ہیں، پولیس کنٹرول کے 80فیصد کیمرے خراب ہیں، کے ایم سی کے 90فیصد کیمرے کام کر رہے ہیں لیکن شہر میں کئی گناہ زیادہ اور اچھی ریسولوشن والے کیمرے درکار ہیں جن کے لیے بڑا بجٹ چاہیے۔ ایسی صورت حال میں وزیرداخلہ کا گورنر کے ہمراہ دورے کرنا مزید منفی تاثر دے رہا تھا، شاید وزیر داخلہ نے اس موقعہ پر اپنی سیاسی مخالفت کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھا جو انتہاہی غلط ہے۔
Targeted killings
کراچی کو پہلے رمضان یعنی 7 جون سےسےریڈ الرٹ کردیا گیا ہے اور 23 جون تک ٹارگٹ کلنگ کی دس وارداتیں ہوچکی ہیں۔ لہٰذا دن دہاڑے چیف جسٹس سندھ ہائیکور ٹ کا بیٹا اگر اغوا ہوجاتا ہے اور اس کے دو دن بعددن دہاڑئے ہی ایک بڑا فنکار قتل کردیا جاتا ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والوں کے دعوئوں کی قلعی کھل جاتی ہے کہ حالات انکے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کے ممکنہ اثرات پاکستان کے اقتصادیات پر براہ راست اثرانداز ہوتے ہیں ۔ کراچی جو پاکستان کی معیشت کا حب ہے، اگر وہاں بہتری آتی ہے تو پورئے ملک پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ آٹھ دن گذر جانے کے باوجود چیف جسٹس کے بیٹے کا پتہ نہیں چل سکا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کراچی شہر میں مقامی اور غیرمقامی دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کام کررہے ہیں،جس سے انکے مددگاروں کی شہرمیں موجودگی ثابت ہورہی ہے۔ کیا کراچی میں یہ سب کچھ ہوتا رہےگا۔ایک صوبے میں جہاں کرپشن کا راج ہو اور اس صوبے کے چند وزیر، مشیر اور انسپکٹر جنرل کو کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا ہو، وہاں قانون پر عمل کیسے ہو ؟ شاید قانون نافذ کرنے والوں کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے۔
ویسے تو پوراسندھ لیکن خصوصاً کراچی مکمل لاقانونیت کا شکار ہے، حکومت کی رٹ دور دورنظر نہیں آتی۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود شہر میں جرائم پیشہ عناصر، دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر ز اب بھی قانون کی گرفت سے محفوظ ہیں۔ کراچی آپریشن میں کراچی اور اس کے عوام کو جرائم پیشہ عناصر اوردہشت گردوں سے تحفظ نہ ملنا اور ان کا دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے رحم و کرم پر ہونا انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے۔آپریشن کے باوجود شہر میں شہریوں کے قتل، اغواء اور بھتہ خوری کی وارداتیں عروج پر ہیں، لیکن کراچی آپریشن کی کامیابی کے جھوٹے دعوے کئے جارہے ہیں۔ یہ حالات سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ رینجرز کی موجودگی میں امن و امان کی صورتحال یہ ہے تو رینجرز کےجانے کے بعد کیا ہوگا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ کیا ہوگا وہی دعویٰ ہونگے جو اب ہورہے ہیں، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہوگا جہاں اتنا بڑا فنکار قتل کردیا جائے اور حکومتی وزیر کہہ رہا ہو کہ اگست اور ستمبر کے مہینے خونی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس وقت تو کراچی آپریشن بھی ہورہا ہے اور شہر میں لاقانونیت کا راج بھی ہے۔ آرمی چیف اور وفاقی حکومت اگر کراچی آپریشن کو کامیاب اورکراچی کو دہشت گردوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو انکو کراچی میں دہشت گردوں اورانکے سہولت کاروں کا مکمل صفایا کرنا ہوگا اور یہ سارا عمل لازمی طور پر غیر سیاسی ہونا چاہیے۔