صدیق خان کی رحلت۔۔مصالحتی سیاست کا باب تمام ہوا

Siddique Khan

Siddique Khan

تحریر: مختار اجمل بھٹی
میری ان سے پہلی ملاقات محترم دوست حافظ عبدالباسط کے نواب آباد میں بزنس سینٹر کے افتتاح کے موقع پر ہوئی جب ہم ان کے گھر چائے پی رہے تھے ابھی مجھے صحافت سے منسلک ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا حافظ صاحب نے تعارف کرایا اور ملاقاتوں کا یہ سلسہ کئی سالوں تک جاری رہا۔جلسے جلوسوں،کارنر میٹنگز اور مختلف تقریبات میں تحصیل ناظم ٹیکسلا صدیق خان کا خطاب سننے کا موقع ملتا اور اکثر و بیشتر ان سے مکالمہ بازی کا سلسلہ بھی چل نکلتا صحافیوں کی جانب سے کیے گئے سوالوں کو وہ بڑے غور سے سنتے اور نہایت ہی صبرو تحمل اور مدلل انداز سے ان کا جواب دیتے۔ وہ ہنس مکھ اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کے چبھتے سوالوں کا وہ اس انداز میں جواب دیتے کہ محفل زعفران بن جاتی۔

ٹیکسلا کی کھٹڑ برادری سے تعلق رکھنے والے معروف زمیندارمحمد حیات خان کے منجھلے بیٹے صدیق خان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1979 میں چئیرمین یونین کونسل کی حیثیت سے کیا بعد ازاں وہ ممبر ضلع کونسل بھی منتخب ہوئے پرویز مشرف دور میں جب ضلعی حکومتوں کا قیام عمل میں لایاگیا تو صدیق خان تحصیل ٹیکسلا کے ناظم منتخب ہوئے یہیں سے انہیں عوام کی خدمت کا بھرپورموقع میسر آیا اورانہوں نے بھی عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

دن رات مخلوقِ خدا کی خدمت میں جُت گئے ٹیکسلا سے حاجی غلام حسن، چن شاہ کاظمی ،ملک پرویز،اجمل خان تنولی،ملک مشتاق، افسر خان، شیراز احمد شیرازی،ریاض اعوان اور تحصیل نائب ناظم ملک طارق محمود جبکہ واہ سے ماسٹر نثار،ملک تیمور مسعود اکبر،حاجی منیر جلال،ملک عظمت محمود،عامر شاہ،ملک اظہرنواز المعروف اجی ملک ان کا ہراول دستہ تھے باوا محمد اکرم،ملک رفاقت محمود،اعجازخان اور محمودالحسن جیسے نڈروبیباک مزدور رہنمائوں کا تعاون بھی ان کے شامل ِ حال رہا۔

Taxila

Taxila

یہی وجہ ہے کہ صدیق خان کی سرپرستی و رہنمائی کی بدولت ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور پنجاب بھر میں ریکارڈ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے تحصیل ٹیکسلا کو ماڈل تحصیل کا درجہ مل گیا اہلیانِ ٹیکسلا نے بھی اپنے محبوب قائد پر اپنی محبتیں نچھاور کیں اوران کی محنت ،لگن اور عوامی خدمت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انہیں دوبارہ تحصیل ناظم بنا دیا۔تحصیل نظامت کا دوسرا دور بھی انھوں نے اپنی پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے گزاراعوام سے رابطہ ان کا کبھی بھی منقطع نہیں ہوا صبح اپنے گائوں پنڈ نو شہری،10 بجے تک مارگلہ کے قریب پٹرول پمپ پر اس کے بعد تحصیل آفس اور شام کو کسی نہ کسی تقریب میںان سے بہ آسانی ملاقات کی جا سکتی تھی۔

کتنے ہی خاندان اور برادریاں تھیں جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے مگر صدیق خان کی دانش مندی،حکمت اور مصالحانہ رویے کی بدولت باہم شیر و شکر ہو گئے وہ ہر ایک سے ایسی اپنائیت سے ملتے کہ محسوس ہوتا جیسے برسوں کی شناسائی ہوبات نپے تلے انداز سے کرتے کیا اپنے کیا پرائے سبھی ان کے طرزِ گفتگو اور عجز و انکساری کے معترف تھے انتظامی افسران اور اہلکاروں کی غفلت و لاپرواہی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی ایک دفعہ ان کے آفس میں ایک ضعیف عمر رسیدہ خاتون آئی اور دہائیاںدینے لگی صدیق خان نے اسے نہایت احترام کے ساتھ کرسی پر بٹھایا اور پوچھا اماں جی مسئلہ کیا ہے ؟

Election

Election

بزرگ خاتون نے اپنے حلقے کے پٹواری کی شکایت کی کہ وہ فرد ملکیت بنا کر نہیں دے رہا یونین ناظمین اور کونسلر حضرات بھی وہیں موجود تھے صدیق خان نے متعلقہ پٹواری سے فون پر رابطہ کرنے کے لیے کہا جب رابطہ ہوا تو انھوںنے پٹواری سے پوچھا کہ وہ بزرگ خاتون کو فرد ملکیت کیوں نہیں دے رہا پٹواری توجیہہ پیش کرنے لگا مگر صدیق خان نے دو ٹوک اندازمیں اسے جواب دیا کہ فرد ملکیت صبح دفتر میں لے آئواور اماں جی کے حوالے کردو۔8 سال تک انھوں نے عوامی خدمت کا بھرپور دور گزارا۔ 2013 ء کے عام انتخابات سے قبل انھوں نے اپنے بڑے بھائی غلام سرور خان اور دوست احباب کے ساتھ تبدیلی کے علمبردارچئیرمین تحریک انصاف عمران خان کے قافلے میں شمولیت اختیار کر لی اور الیکشن جیت کر ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہو گئے۔

جبکہ ان کے بڑے بھائی غلام سرور خان حلقہ این اے 53سے ایم این اے بن گئے پنجاب اسمبلی کے فلور پر وہ نا صرف اپنے حلقے کے عوام کے حقوق کی بات کیا کرتے تھے بلکہ مختلف قومی ایشوز پر اپنے خیالات کا برملا اظہا ر بھی کیا کرتے تھے عوامی خدمت کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہتا کہ موت نے انہیں مہلت نہ دی اور 19جون کو وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ان کے کردار و عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صدیق خان کی رحلت سے مصالحتی سیاست کا باب تمام ہو گیا کچھ ہی روز بعد ان کی ہمشیرہ بھی وفات پا گئیں۔

Punjab Assembly

Punjab Assembly

پے در پے سانحے خان فیملی کے لئے اک المیے سے کم نہیں۔ جہاں غلام سرور خان ایم این اے اور شفیق خان غم سے نڈھال ہیں کہ ان کی پیاری ہمشیرہ اورجرات مند بھائی بچھڑ گیا وہیں ٹیکسلا کے عوام ماتم کناں ہیں کہ ان کا محبوب قائد ،فخر ٹیکسلا صدیق خان اس جہاں سے رخصت ہو گیا ٹیکسلا کی فضا سوگوار ہے ہر خاندان غمزدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہے ان کے جنازے میں شریک ہزاروں کا جمعِ غفیراس بات کا عکاس ہے کہ صدیق خان اس دنیا سے تو چلا گیا مگر اہلیانِ ٹیکسلا کے دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔

تحریر: مختار اجمل بھٹی