تحریر : سالار سلیمان کیو موبائل پاکستان کا نامور موبائل برانڈ ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں اپنی مارکیٹنگ کو تیز کرنے کیلئے وہی طریقہ آزمایا جو کہ ہر ذہین آدمی آزماتا۔ کمپنی نے اپنی پراڈکٹ اور غالباً ری برانڈننگ کیلئے بھارت کی کمپنی کا انتخاب کیا۔ یہ انتخاب دو بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ پاکستان کی نسبت بھارت میں اشتہاری صنعت زیادہ بڑی ہے ‘ وہاں پر تخلیقی اور تکنیکی صلاحیتیں بھی زیادہ ہیں’ دنیا بھر کی بڑی اور نامور کمپنیاں مختلف اشتہارات بھارت سے تیار کرواتی ہیں۔ بھارت کی فلم سازی کی صنعت بھی دنیا کی نامور صنعت بن چکی ہے ۔ میڈیا میں بھارت ہم سے آگے ہے اور ہمیں اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے ۔
اب جب پاکستان کی کمپنی نے انڈیا سے ایڈ بنوانے کیلئے ایک کمپنی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کمپنی کو مطلوبہ اشتہار بنا کر دے دیا۔ اب اس کو سازش کہ لیں’ یاں اس کو نا اہلی کہ لیں ‘ یاں اس کو چشم پوشی کہ لیں اور یاں جو بھی نام دیں کہ وہ اشتہار اس وقت پاکستان کا متنازعہ ترین اشتہار ہے تاہم میڈیا مالکان پیسوں کیلئے اس کو ٹی وی پر چلا رہی ہیں۔ یہ اشتہار عام اشتہار کی نسبت طویل ہے اور آج تک مسلسل چل رہا ہے ۔ اب یہاں سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کا ذکر ہم آخر میں کریں گے، ابھی سر دست اگلی بات کی جانب بڑھتے ہیں۔
یہ اشتہار متنازعہ کیو ں ہے ؟کیوں کہ اس اشتہار سے ہماری خاندانی روایات کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔ اس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکی سارہ کو کرکٹ کا شوق ہے، و ہ اپنے جنون کی تکمیل کیلئے دوسرے شہر جا رہی ہے ۔ اس کا باپ اس کی اس حرکت سے سخت ناراض ہے ،تاہم اس کی ماں نے اس کو بھیج دیا۔ یہاں پر ایک قابل اعتراض مکالمہ ہے کہ ماں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ جانے سے پہلے ابو سے بات کرتے جانا اور لڑکی نے صاف جواب دیاکہ امی ابو سے بات نہیں کی جا سکتی ہے ‘ صرف سنی جا سکتی ہے ۔ سارہ کھیل کے میدان سے ماں سے بات بھی کرتی ہے اور تصاویر بھی بھیجتی ہے ، سارہ کا ٹیم میں سلیکشن بھی ہوتا ہے اور روزہ افطار کرتے ہوئے ماں سے گفتگو بھی کرتی ہے ۔ ٹیم میں آخری اوور میں وہ گیند بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو میچ جتوا دیتی ہے ۔یہاں پر اس کا باپ اس سے فون پر بات کرتا ہے اور جب وہ اسٹیج پر اپنا انعام لینے جاتی ہے تواختتامی کلمات میں باپ کے پاس جانے کی خواہش کاا ظہار ہے ۔
Hate
بظاہر دیکھنے میں تو یہ اشتہار بے ضرر ہے ‘ لیکن جیسے ہی آپ ایک ذمہ دارکی حیثیت سے اس اشتہار کو دیکھتے ہیں تو آپ کو سمجھ میں آتی ہے کہ کس مکاری کے ساتھ پاکستان کی خاندانی روایات کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔ اشتہار کے آغاز میں ہی بغاوت کا بیج اس طرح سے بویا جاتا ہے کہ عا م نوجوان اپنے باپ کی جانب سے کی جانے والی سختی کو درحقیقت ظلم سمجھے۔ اسکے بعد یا تو وہ مکمل نافرمانی کر لے اور یاں پھر وہ دبارہے۔ اب اگر وہ دبا رہے گا تو اس کے دل میں باپ کیخلاف نفرت جنم لے گی اور جب یہ نفرت کسی وقت میں ابھر کر سامنے آئی گی تو یہ کیا گل کھلائے گی ؟ اوریا مقبول جان میرے اساتذہ میں سے ہیں ‘ میں نے ہمیشہ ہی ان کو مخلص اور شفیق پایا ہے ۔ انہوں نے جب ایڈورٹائزنگ کے وومن ٹول کو نشانہ تنقید بنا یا ہے
‘اس کے بعد سے وہ لنڈے کے دیسی لبرلز کے نشانے پر ہیں۔ انہوں نے میڈیا میں ایک عرصہ گزاراہے اور انہوں نے اپنے تجربا ت قلمبند کیئے ہیں۔ میں نے بفضل تعالیٰ پاکستان کی نامور جامعہ سے ابلاغیات کی ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی ہے۔ فارن میڈیا کے ساتھ بھی کام کیا ہے ۔ میں جس حد تک میڈیا سمجھتا ہوں ، میں اوریا مقبول جان صاحب کی بات سے سو فیصد متفق ہوں ۔ اس اشتہار کے پروڈیوسر نے اس اشتہار میں بھی لڑکی کی معصومیت اور نسوانیت سے کھیل کیا ہے ۔ جس اینگل سے لائٹ سلو کیمرہ موو کیا ہے اور جس اینگل سے شاٹ لیا گیا ہے ‘ کیا کبھی حقیقی کھیل کے میدان میں اس اینگل سے شاٹ لیا جاتا ہے ۔ اس شاٹ میں لڑکی کو بحیثیت آبجیکٹ ہی استعمال کیا گیا ہے ۔ اب اگر اوریا صاحب نے اس پر بات کر دی ہے تو سب لٹھ لے کر اُن کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ ایسا ہے ، میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کیونکہ رپورٹنگ میں میں نے بھی کیمرہ مینوں کی ذہنیت کو پڑھ اہے
وہ کیمرہ مین جو معمولی تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ اشتہارت وغیرہ کیلئے کیمرہ مین مناسب تنخواہوں پر ہوتے ہیں اور وہ کیا کچھ نہیں کر تے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سین کی ڈیمانڈ کے نام پر عورت کو بحیثیت آبجیکٹ جیسے مرضی استعمال کر لیا جائے ؟ اشتہار کے آخر میں با پ کو شکست خوردہ دکھا کر کیا سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ با پ اگر اپنی بیٹی کو عفت کا درس دے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو معاشرے کے درندوں سے بچانے کیلئے کوشش کرے؟کیا ایک باپ کو ئی حق نہیں کہ و ہ اپنے بچوں کو صحیح اور غلط کی تعلیم دے؟کیا وجہ ہے کہ یہ اشتہار باقی اشتہارات کی نسبت لمبا شوٹ کیا گیا ہے ؟کیا وجہ ہے کہ یہ لمبا اشتہار ٹی وی سکرینوں پر مکمل دکھائی دے رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک کمپنی ایک اشتہار کیلئے اتنا بڑا سرمایہ خرچ کر رہی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ اس اشتہار میں موبائل لینے کے حوالے سے کوئی بھی تحریک نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس اشتہار میں موبائل فون کی خصوصیات پر کوئی نظر نہیں دوڑائی گئی ہے؟ مارکیٹنگ کی کون سی اصلاح میں یہ اشتہار مکمل ٹھہرتا ہے؟ کیا ان سوالوں کا جواب ہمیں یہ نہیں بتا تا ہے کہ درحقیقت یہ ایک پراپیگنڈہ ہے؟
Halima
اب ایک حقیقی واقعہ بھی سن لیں۔ حلیمہ پاکستان کی خواتین کی قومی ٹیم کی کھلاڑی تھی ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اُس کو کھیل کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اُس کی نظر جب گیند بلے پر پڑ جاتی تھی تو وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتی تھی ۔ پھر ایک دن آیا کہ اس کو سلیکشن کیلئے جاناتھا، اسکے باپ نے بھی مخالفت کی ‘ سختی سے روکا لیکن وہ پھر بھی کسی نہ کسی طرح سے گھر سے کھیل کے میدان اور پھر وہاں سے ملتان کرکٹ اکیڈمی تک پہنچ گئی۔ باہر کی دنیا حلیمہ کیلئے مختلف تھی ۔ یہاں پر مرد تھے’ بھوکے بھیڑیے تھے ‘ انسانوں کے روپ میں درندے تھے ۔ اس کو مرد حضرات کی زیر نگرانی کی ٹریننگ کرنی تھی ۔ اس کو اکیڈمی میں موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی تاہم وہ مقررہ اوقات میں گھر بات کر سکتی تھی ۔ ملتان کرکٹ اکیڈمی میں وہ جہاں پر اسٹاف کی گندی نظروں کا شکار ہے’ وہیں پر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ ملتان کرکٹ اکیڈمی کا صدر مولوی سلطان انصاری اور ٹیم سلیکٹر محمد جاوید اس پر ‘خصوصی ‘ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے دل میں بہت دفعہ آیا کہ وہ واپس گھر چلی جائے لیکن اگر وہ ناکامی کے ساتھ گھر جاتی تو اُس کیلئے یہ ناممکن تھا۔ اس کیلئے اکیڈمی میں کامیابی حاصل کرنا بہت ضروری تھا۔ دن جیسے تیسے کر کے گزر رہے تھے ۔
سترہ سالہ حلیمہ کیلئے ہر دن کرب کی علامت تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر لڑکی ایک مرتبہ اپنی عزت کھو دے تو قبر تک اس کو دوبارہ عزت نہیں ملتی ہے ۔ اس نے مولوی سلطان اور جاوید کے روز روز کے مطالبوں کے تنگ آ کر ایک دن رمضان المبارک میں زہر کی بوتل کے ساتھ روز ہ افطار کر لیا۔ یہ خبر میڈیا کیلئے اہم نہیں تھی لہذا اس پر کوئی خاص بات نہیں ہوئی ۔ یہ خبر کیو موبائل اکا اشتہار دیکھ کر مجھے مماثلت کی وجہ سے ہی یاد آیا تھا۔ اشتہار میں بیٹی اپنے باپ کی اکڑ کو توڑ کر ‘ٹرافی اور انعام لیکر گھر جاتی ہے ۔ حقیقی زندگی میں حلیمہ کئی سال میرٹ کیلئے کوشش کرتی ہے لیکن جب اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میدان میں ‘کچھ اور ٹیلنٹ’ بھی چاہئے ہوتا ہے تو وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لیکر میڈیا میں آئی لیکن اس کی سنوائی نہ ہوئی اور پھر ایک دن تنگ آ کر اس نوجوان لڑکی نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ 2014ء کے رمضان میں حلیمہ نے خود کشی کر لی۔
کیو موبائل اور حلیمہ کی مماثلت دیکھیں اور فیصلہ کر یں کہ کیا کیو موبائل کا اشتہار ٹھیک ہے؟ کیا وہ نئی نسل کو بد تمیز باغی بننے کی تحریک نہیں دے رہا؟ کیا ایسے اشتہار ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں ہیں؟ کیا ایسے اشتہارات ہمارے معاشرے کو متزلزل کرنے کا سبب نہیں بنیں گے؟ جس طرح سے کیمرہ اینگلزکا استعمال کیا گیا ہے کیا وہ قومی سطح پر فحاشی کے فروغ کے ضمرے میں نہیں آتا ہے ؟ایسے میںجب اوریا مقبول جان نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ملک کے نامور جریدے نے اُن کے خلاف اداریہ تک لکھ دیا ۔ ہم مشرقی معاشر ے کے لوگ ہیں اور یہاں کے لبرل اور سیکولرز بھی اپنے نکاح کیلئے اما م مسجد کو بلواتے ہیں’ یہاں کے دہریے بھی اپنے آباء کو دفن کرنے کیلئے امام مسجد کی امامت میں نماز جنازہ پڑھاتے ہیں، اُن کی قبر پر کھڑے ہوکر دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ یہ معاشرہ دیگر معاشروں کی نسبت اپنی جڑوں سے زیادہ جڑا ہوا ہے ۔ یہاں پر ایسے اشتہار پراپیگنڈہ ہی تصور کئے جا سکتے ہیں۔ میں نے کیو موبائل کا اشتہار اور ایک حقیقی واقعہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اور آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کون بہترہے اور کون ٹھیک ہے۔