تحریر: شاہ بانو میر کسی تجربہ گاہ میں ایک سائنس دان تتلی کے لاروے پر تجربات کررہا تھا۔ لاروا تتلی بننے کے آخری مراحل میں تھا۔ کچھ ہی دیر میں اس لاروے نے ایک مکمل تتلی کا روپ دھار لینا تھا۔ سائنس دان نے دیکھا کہ لاروے میں ایک سوراخ بن گیا ہے۔ یہ خول کافی چھوٹا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ تتلی کے لئے اس سے باہر آنا ممکن نہیں تھا لیکن تتلی خوب زور لگاتے ہوئے اس سوراخ کے ذریعے باہر آنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
سائنس دان نے سوچا کیوں نہ میں اس تتلی کی مشکل آسان کرتے ہوئے اس سوراخ کو ذرا وسیع کردوں تاکہ تتلی آسانی سے باہر آسکے۔ اور اس نے ایسا ہی کیا۔ ایک آلے کی مدد سے اس نے لاروے کے خول میں سوراخ کو اتنا چوڑا کردیا کہ تتلی آسانی سے باہر آسکتی تھی۔ آخر کار تتلی ذرا سے دیر میں لاروے سے باہر آگئی۔
Butterfly
مگر …. سائنس دان کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ تتلی باوجود کوشش کے اڑ نہیں پا رہی۔ حتیٰ کہ اس کے پر تک پورے نہیں کھل رہے۔ بظاہر ایسے عوامل نظر نہیں آرہے تھے جو تتلی کی اس معذوری کی وجہ ہوں۔ ایسی پریشانی کے عالم میں وہ سائنس دان تتلی کو اپنے سنیئر سائنس دان کے پاس لے گیا اور سارا ماجرا سنا۔
سنیئر سائنس دان نے ایک سرد آہ بھری اور کہا ” رے نا وہی انسان کے انسان! …. اور دے دی نا اسے عمر بھر کی معذوری ۔ جب تتلی لاروے سے باہر آنے کے لئے زور لگا رہی ہوتی ہے تو اس وقت چند مادے اس کے پروں میں سرایت کرجاتے ہیں۔ انہی مادوں کی وجہ سے تتلی کے پروں میں جان آتی ہے اور تتلی اڑنے کے قابل ہوجاتی ہے۔”
زندگی بھی ایک ایسی ہی تتلی ہے جو مشکلات کے لاروے میں بند ہے۔ مشکلات سے گزر کر ہی زندگی اپنے اصل مقصد کو پاتی ہے۔ تو اپنی کوشش جاری رکھئے اور دوسروں پر انحصار نہ کریں۔ آپ کی مشکلات، اللہ اور خود آپ کے سوا کوئی دوسرا دور نہیں کرسکتا۔