تحریر : روہیل اکبر پاکستان میں جب سے آمریت کی پیوند کاری میں جمہوریت کا پودا پروان چڑھ رہا ہے اس وقت سے حکمرانوں کے مالیشیوں میں بھی خوش آمد پن کا مادہ بڑھنا شروع گیا ہے جو جتنا چرب زبان، لیٹنے اور جی سر کہنے والا ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ نواز دیا جاتا ہے ورنہ کام کرنے والے یوں ذلیل وخوار نہ ہوتے جیسے اب ہورہے ہیں آپ کسی بھی محکمے کے سربراہ کا شجرہ نکال کردیکھ لیں تو ایسے ملازمین کی بھر مار نظر آئے گی جواپنی قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ چاپلوسی کی بدولت تیزی سے اوپر آئے اور پھر بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوگئے جبکہ بعض محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے جونیئر افسران نے رمضان المبارک میں بھی جھوٹ بولنے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا عہد کررکھا ہے ہمارے خادم اعلی جو خواب میں بھی اکیلے عوام کے ساتھ گھل مل نہیں سکتے انکے بارے میں محکمہ تعلقات عامہ ایسے خبریں چلا رہا ہے کہ خادم اعلی عام بس میں بیٹھ کر مسافروں میں گھل مل گئے۔
ہسپتال کے دورہ کے دوران مریضوں اور انکے اہل خانہ سے ملے ایسی خبریں وہی جاری کرتے ہیں جو اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں ایسے افسران بھی خوش آمدی کی پیوند کاری میں پروان چڑھے ہوتے ہیں جو اپنے سے اوپر ہر ایک کو خوش کرکے اپنے نمبر بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ایسے افراد بہت جلد اوپر اور پھر ان سے اوپر والوں کی نظروں میں آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بار بار ایسی خبریں چلوائی جاتی ہے کہ خادم اعلی عام آدمیوں میں گھل مل گئے جبکہ ہمارے وزیراعلی تو خیر سے اپنے پارٹی ورکروں سے نہیں ملتے اورمیں ذاتی طور پر ایسے پارٹی ورکروں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مشرف دور میں ہمت نہیں ہاری اور وہ ن لیگ کا جھنڈا اٹھائے بڑی بڑی آفریں ٹھکراتے رہے ان میں بہت سے افراد مسلم لیگ ن سمیت اسکے مختلف ونگز سے تعلق رکھتے ہیں جوآج تک دربدر ہیں۔
ان سے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے مگر آفرین ہے انکے عقیدہ پر کہ وہ اس تمام بے عزتی کے باوجود مسلم لیگ ن کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ورکروں کے ساتھ یہ زیادتی صرف مسلم لیگ ن میں ہی نہیں ہوتی ہمارے ہاں جتنی پارٹیاں ہیں سب میں ہی ایسا کما ل فن پایا جاتا ہے ابھی پچھلے دنوں وزیراعظم صاحب کے دل کا آپریشن ہوا تو خادم اعلی صاحب بھی اپنے بڑے بھائی کی عیادت کے لیے لندن گئے تووہاں پر لی گئی ایک تصویر فیس بک پر شیئر کردی گئی اس تصویر میں وزیراعلی شہباز شریف انکے بیٹے حمزہ شہباز شریف اور بھتیجے حسین نواز بغیر کسی پروٹوکول اور ہجوم کے ایک ہی گاڑی میں سفر کررہے تھے اور کسی قسم کا کوئی ڈر بھی محسوس نہیں کررہے تھے۔
Pakistan
مگر جیسے ہی یہ حاکم اعلی اپنے ملک واپس اپنے ان لوگوں کے پاس آتے ہیں جنہوں نے انہیں اس منصب تک پہنچایا ہوتا ہے ان سے چھپنے کے لیے درجنوں گاڑیوں اور سینکڑوں پولیس والوں کی سیکیورٹی کے حصار میں چلے جاتے ہیں لاہور کی سڑکیں اس وقت بلکل خالی کروالی جاتی ہیں جب ان کی شاہی سواری گذرنا ہوتی ہے ہمارے آج تک کے آنے والے تمام حکمرانوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے میرٹ میرٹ کا رٹہ لگایاہوتا ہے مگر اندر کھاتے سب کام ہی اس کے الٹ ہورہے ہوتے ہیں صرف اپنے ووٹ پکے کرنے کے لیے حق دار کا حق چھین کر کسی نااہل کو اسکی جگہ تعینات کردیا جاتا ہے پھر اسکی مرضی ہے کہ وہ کیسے عوام کو حکمرانوں کی طرح خوار کرے ۔پاکستان کی تقدیر کو سنوارنے والے آج تک جتنے بھی ٹھیکیدار آئے۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنے آپ کو سنوارا خاندان کو باہر سیٹ کیا اور پھر اپنی سیٹوں کو پکا کرنے کے لیے ایسے ایسے افسران کا سہارا لیا جو ہر غلط کام میں ان کے دست بازو بن گئے ایسے افسران ضرورت سے زیادہ حکمرانوں کے وفاد اربن جاتے ہیں جہاں ایک طرف یہ انکی خوش آمد کے نئے نئے طریقے دریافت کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف انکے ہر غیر قانونی کام پر عمل درآمد کروانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں ایسے افسرا ن کو صرف انکی ناراضگی کے علاوہ کسی اور کا ڈر نہیں ہوتا۔
کیونکہ انکی لائن سیدھی ہوچکی ہوتی ہے اور بہت سے ایسے افسران ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو اپنے کام میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں مہینوں کا کام دنوں میں نمٹانا جانتے ہیں اور حق بات پر ڈٹنے والے بھی ہوتے ہیں مگر ان میں ایک سب سے بڑی خرابی بھی موجود ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حکمران کے غلط اور غیر قانونی کام کو نہیں کرتے اور ان کو کسی بھی اہم سیٹ پر تعینات نہیں کیا جاتا پنجاب میں کچھ عرصہ کے لیے سردار دوست محمد کھوسہ کو مجبورا وزیراعلی بنا نا پڑگیا۔
Mayo Hospital
انہوں نے میو ہسپتال میں چھاپہ مارا تو اس وقت کے ایم ایس نے وہاں پر لوٹ مار کا ایسا بازار گرم کررکھا تھا جیسے مال غنیمت پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے جس پر سردار دوست کھوسہ نے اسے معطل کردیا اسکی معطلی پر میاں شہباز شریف نے سردار صاحب کی نقل وحرکت پر پابندی لگا دی اور اسے صرف گھر سے دفتر اور پھر واپس گھر جانے کی اجازت دی اسکے ساتھ ہی انہیں فوری طور پر رانجھا صاحب کو بحال کرنے کا بھی حکم دیدیا مگر سردار دوست نے ایسا نہیں کیا اس بات کے گواہ بہت سے ن لیگی دوست اب بھی موجود ہیں وہی ایم ایس بعد میں رائے ونڈ مرکز کے ایک بہت بڑے عالم دین کو ساتھ لیکر میاں نواز شریف صاحب کے پاس لے گئے جن کی سفارش پر نہ صرف انہیں بحال کردیا گیا بلکہ ایک اور اہم سیٹ پر تعینات کردیا گیا جو آج تک بڑے مزے سے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔
ہمیں ضرورت ہے سردار دوست کھوسہ جیسے محنتی اور محب وطن لوگوں کی جو آگے آئیں اور ملک کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کرسکیں مگر بدقسمتی سے ہم پر ایسے افراد مسلط ہوچکے ہیں جو اپنے خلاف تنقید برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی حق بات سن سکتے ہیں کچھ عرصہ قبل سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی شراب نوشی کے حوالہ سے خبر کیا لگائی اس مرد مجاہد نے اسمبلی داخل ہونے پر پابندی لگا دی اسی طرح محکمہ اطلاعات میں گریڈ18کے جونیئر افسر کو ڈی جی پی آر تعینات کیا گیا تو حکومت کے اس غیر قانونی کام کی خبر لگائی تو موصوف نے میرا ایکریڈیشن کارڈ روک لیا ساتھ ہی جس جس اخبار میں میری خبریں اور کالم چھپتے تھے۔
ان کے اشتہارات بند کرکے انہیں مجبور کردیا کہ وہ مجھ سے لا تعلقی کا اعلان کریں اور حکومت نے انہیں اس کام کے عوض سیکریٹری اطلاعات کا چارج بھی دیدیا یہ غیر قانونی عہدے ہمیشہ نہیں رہنے ہوتے کبھی تو حساب ہوگا اور پھر اس وقت پچھتانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا مجھے اپنے اللہ پر پورا یقین ہے کہ کبھی تو ایسی قیادت آئے گی جو ایمانداری کے ساتھ ملک کو کرپشن اور چور بازاری کی دلدل سے نکال کر ترقی کی طرف گامزن کریگی اور ایسے افسران کا کڑا احتساب کیا جائے گا جنہوں نے صرف اپنے عہدے بچانے کے لیے میرٹ سے ہٹ کر کام کیے۔