تحریر : عماد ظفر ڈھاکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے انسانیت سوز واقع نے ایک بار پھر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ دنیا کا امن تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے.اس سے پہلے استنبول ائیر پورٹ پر بم دھماکوں میں بے گناہ مارے گئے اور پھر یہ لرزہ خیز واقع جس میں دہشت گردوں نے کئی غیرملکیوں کو ڈھاکہ کے ایک مشہور ریستوران میں یرغمال بنا کر بے رحمی سے قتل کر ڈالا. دہشت گردوں نے پوری رات ریستوران میں آئے بے گناہ افراد کو یرغمال رکھا اور بنگلہ دیش سمیت پوری دنیا کو کئی گھنٹے مضطرب رکھا. اس افسوس ناک واقع کا اختتام بنگالی سیکیورٹی فورسز کی کاروائی کے بعد ہوا جس میں دہشت گرد بھی مارے گئے لیکن اٹالین جاپانی انڈین اور بنگالی نہتے اور بے گناہ 20 شہری دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے. اس واقع کا سب سے خطرناک پہلو جو کہ غور طلب ہے وہ یہ ہے حملہ آور دہشت گردوں کی عمریں 20 سے 21 برس کے درمیان تھیں اور تمام دہشت گرد اعلی معیار کے سکولوں اور کالجوں سے تعلق رکھنے والے تھے.
ان دہشت گردوں کا خاندانی پس منظر بھی اچھا تھا یعنی پڑھی لکھی اور مالی طور پر مستحکم فیملیوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے. عموما دہشت گردی کے مقصد کی تکمیل کی خاطر مدرسوں یا معاشی طور ہر کمزور خاندان کے بچوں یا افراد کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس واقع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اب شدت پسندی محض کسی ایک طبقے یا مدارس تک محدود نہیں. یقینا ماہرین نفسیات اس پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اچھے گھرانوں کے چشم و چراغ جنہیں زندگی کی تمام آسائشیات بن مانگے حاصل ہوتی ہیں اور تعلیمی لحاظ سے بھی وہ عام افراد سے زیادہ شعور کے مالک ہوتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ ایسے نوجوان اس درجہ حیوانیت پر اتر آتے ہیں کہ اپنی جان بھی لے لیتے ہیں اور بے گناہوں کی جان بھی.
Taliban
ڈھاکہ کے اس لرزہ خیز واقع کا ایک اور منفی اور انتہائی سنجیدہ اور غور طلب پہلو بھی ہے اور وہ مذہب کی جانب اشارہ کرتا ہے. اس واقع کے دوران دہشت گرد تمام یرغمالیوں سے قرآنی آیات سنتے رہے. جن افراد کو قرآنی آیات یاد تھیں یا دوسرے الفاظ میں جو مسلمان تھے انہیں چھوڑ دیا گیا جبکہ غیر مسلموں کو بے رحمانہ طریقے سے ہلاک کر دیا گیا. ہم اکثر دنیا بھر میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن اس واقعے نے اب اس دلیل پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں. آخر کو ایسا کیوں ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے مسلمانوں کا ہی ہاتھ نکلتا ہے. ڈھاکہ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی داعش ہو یا دنیا بھر میں دہشت پھیلانے والی تنظیمیں القائدہ اور طالبان ان سب کا تعلق بھی ہمارے مذہب سے ہی نکلتا ہے. دنیا اب اس دلیل کو ماننے سے انکاری ہے کہ دہشت گردوں کا مذہب نہیں ہوتا.
اب پے در پے دہشت گردی کے واقعات جو کہ اسلام کے نام پر کیئے جاتے ہیں دنیا کیلئے انہیں ہضم کرنا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے. اور اگر یہ انسانیت سوز واقعات ایسے ہی مذہب کی آڑ میں ہوتے رہے تو ہم سب مسلمانوں کو دنیا بھر میں مزید پریشانی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. دنیا کے رد عمل سے زیادہ ہمیں خود اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے. کیا ہم خود شدت پسندی کا درس اپنے بچوں میں منتقل تو نہیں کر رہے؟ جب آپ ایک بچے کو یہ سکھائیں گے کہ غیر مسلموں سے میل جول نہیں بڑھانا یہ بھٹکے ہوئے گمراہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے یا امریکہ اور اسرائیل دنیا بھر کو فتح کرنا چاہتے ہیں اور قابل نفرت ہیں تو پھر بچے کے ذہن میں شدت پسندی کا رجحان کا پنپنا اور قدآور درخت بن جانا ایک معمولی سی بات ہے. کم و بیش تمام مسلم ممالک میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے. دنیا کے تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ازل سے دنیا ہوں ہی چلتی آ رہی ہے جو تہذیبیں معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط ہوتی ہیں دنیا میں راج بھی انہی کا ہوتا ہے. اس وقت امریکہ اور اسرائیل مضبوط ہیں اس لیئے راج بھی انہی کا ہے.
Muslim
یہ فطرت کا قانون ہے جسے زور زبردستی بدلا نہیں جا سکتا. اب ان تہذیبوں سے مقابلے کیلئے داعش القائدہ یا طالبان جیسی سینکڑوں تنظیمیں بنا لی جائیں جب تک معاشی طور پر اور معاشرتی طور پر مضبوطی کی جانب عملا سفر کا آغاز نہیں ہو گا تب تک یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا. کبھی کسی ایئر پورٹ پر کوئی بے گناہ مارا جائے گا تو کبھی ریستوران میں اور کبھی سکول میں پڑھتی ننھی کلیاں اس نفرت کی بھینٹ چڑھ جائیں گی. مقابلہ ایک صحت مند اقدام ہے لیکن اگر وہ علم سائینس ٹیکنالوجی معیشت یا تحقیق کے میدانوں میں ہو. بجائے مقابلہ کرنے کے ہم خود ان تہذیبوں سے جلتے رہتے ہیں اور یہ جلن اپنے بچوں میں بھی منتقل کر دیتے ہیں اور پھر جب اس طرح کے لرزہ خیز واقعات ہوتے ہیں تو یا تو ان پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں یا انہیں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف رد عمل قرار دے دیتے ہیں. دنیا میں ایک زمانہ تھا جب جنگیں تلواروں یا گولے بارود کے سہارے جیتی جاتی تھیں لیکن وہ زمانہ بیتے مدت ہو چکی.اب جنگیں نظریاتی محاذ پر اور معاشی محاز پر جیتی اور ہاری جاتی ہیں. بدقسمتی سے پچھلی کئی صدیوں سے دنیا کی ایجادات اور ترقی میں ہم مسلمانوں کا حصہ صفر ہے اور عملا کوئی گرانقدر خدمات ہم دنیا کی ترقی کی خاطر انجام دینے میں ناکام رہے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا علم تحقیق اور دلیل کی قوت کو رد کرنا ہے.
ہم نے خود ہی سوچ رکھا ہے کہ ہم خدا کی محبوب ترین قوم ہیں اس لیئے دنیا کا حق حکمرانی بھی ہمیں ملنا چاہیے. دوسری جانب صدیوں پر مبنی دنیا کے تہزیب و تمدن کی تبدیلی اور ترقی کو بھی ہم ماننے سے انکاری ہیں کیونکہ اس سے ہماری اجتماعی ناکامی کا پول کھلتا ہے. لیکن آخر کب تک ہم شتر مرغ کی طرح گردن چھپا کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی نفرت اور شدت پسندی کی آگ میں جھونکتے ہی رہیں گے. امن سے بڑی نعمت کوئی نہیں ہوتی اور اگر غور کریں تو جن تہذیبوں سے ہم نفرت کرتے ہیں اور جن کی تباہی کے خواہاں ہیں ان تہذیبوں نے اپنے باشندوں کیلئے ہر ممکن طریقے سے امن کسی نہ کسی صورت برقرار رکھا ہوا ہے. یہی وجہ ہے کہ آپ کو اب امریکہ میں کبھی بھی طالبان القائدہ یا داعش کے حملے نظر نہیں آتے. البتہ اپنی ہی سرزمینوں پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں بچوں اور عورتوں کو ہم روز گاجر مولی کی طرح کٹتے دیکھتے ہیں. اپنے ہی بچوں کو نفرت اور تعصب کی آگ میں جھونکتے ہیں.بلاشبہ یہ تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے لیکن تہذیبوں کا ٹکراو ایک فطری عمل ہے اور اگر ہمیں اپنی تہزیب کو فاتح بنانا ہے تو سب سے پہلے شدت پسندی اور تعصب کو ترک کر کے ایک ایسی سوچ تیار کرنا پڑے گی جو دنیا بھر کی ایجادات میں اور ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے. اگر ایسا ہو جائے تو ہماری تہذیب خود بخود دوسری تہذیبوں پر حاوی آ جائے گی. لیکن اس کے لیئے شرط یہ ہے کہ قدامت پسندی اور شدت پسندی کی سوچ کو ترک کر کے علم و تحقیق کی جانب رخ کیا جائے.