نیویارک (جیوڈیسک) سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلیمان ال سعود نے گزشتہ دنوں اپنے دورہ امریکہ کے دوران اوبامہ انتظامیہ کے اعلٰی عہدیداروں سے ملاقاتیں کر کے یہ درخواست کی تھی کہ نائن الیون کے حوالے سے 2003ء کی کانگریس کی رپورٹ میں سے اُن 28 صفحات کو منظر عام پر نہ لایا جائے جس میں سعودی عرب کو اس سانحہ کا قصور وار قرار دیا گیا ہے ۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں اور 28 صفحات کو سرد خانے میں ہی رکھا جائے لیکن امریکی ایوان نمائندگان کی اکثریت کا دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے کو چاہیئے کہ وہ دنیا کو حقائق بتانے کے لیے نائن الیون کے حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ کو من و عن سامنے لائے تاکہ دنیا جان سکے کہ اس سانحہ کا ذمہ دار سعودی عرب ہی ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی مختلف مرتب کردہ رپورٹوں کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ادارے آئندہ چند روز میں 28 صفحات پر مشتمل 2003ء کی کانگریس کی رپورٹ منظر عام پر لانے والے ہیں ، جس میں سعودی عرب کے بارے میں نائن الیون حملوں کی مالی معاونت فراہم کرنے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں مگر سعودی عرب نے امریکہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو اس سے دونوں ممالک کے تعلقات نہ صرف متاثر ہونگے بلکہ تیل کی سپلائی اور او آئی سی گروپ میں شامل عرب ممالک کے بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں ۔
ایک امریکی سابق سینٹر کا کہنا ہے کہ نائن الیون حملوں کی مالی معاونت میں سعودی عرب ہی ذمہ دار ہے اور اس رپورٹ میں سعودی عرب کے گھناؤنے کردار کے شواہد موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 28 صفحات پر مشتمل یہ خفیہ رپورٹ نائن الیون حملوں کی پہلی کانگریسی تحقیقات کا حصہ ہیں جس میں امریکہ میں موجود مبینہ سعودی نیٹ ورک کے حوالے سے سوالات اٹھائے گے ہیں جس نے دو ہائی جیکروں کی مدد کی ۔ اس رپورٹ میں سعودی عہدیدار فہد التھمیری کے حوالے سے زیادہ سوالات اٹھائے گے ہیں جو نائن الیون کے واقعہ میں ملوث دو ہائی جیکروں کے ساتھ رابطے میں تھا ۔
نائن الیون حملوں کی تحقیقات کرنے والی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سابق سینٹر باب گراہم چند دنوں پہلے یہ کہتے رہے ہیں کہ تحقیقاتی رپورٹ کے یہ 28 صفحات انتہائی دھماکہ خیز ہونگے ۔ اس رپورٹ کے بارے میں سعودی عرب کو کافی پریشانی کا سامنا ہے اور وہ کافی عرصہ سے اس رپورٹ کو شائع نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا آیا ہے اور وہ اس میں ردو بدل اور تبدیلی کا خواہاں ہے ۔
معتبر ذرائع نے ” دنیا نیوز” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ امریکی صدر اوبامہ زیادہ دیر تک اس رپورٹ کو نہیں روک سکیں گے کیونکہ ایوان نمائندگان کے سینکڑوں ممبران کا دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ اس رپورٹ کو اُسکی اصل حالت میں ہی جلدازجلد جاری کر دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوبامہ انتظامیہ اس وقت کانگریس اور سینٹ کا دباؤ مسترد کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اسکے اثرات آئندہ امریکی صدارتی انتخابات پر پڑنے والے ہیں ۔ لہذا وائٹ ہاوس اس وقت سکوت کے عالم میں ہے اور دوسری طرف تھنک ٹینک ادارے بھی تمام صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔