تحریر : عقیل خان دنیا میں آبادی کا عالمی دن 11جولائی کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہر سال 11جولائی کو 1989سے منایا جا رہا ہے۔اس دن دنیا بھر میں مختلف سیاسی ، سماجی تنظیمیں، این جی اوزمختلف تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد آبادی میں اضافے کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں عالمی سطح پر آگاہی کے علاوہ فیملی پلاننگ اور انسانی حقوق کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔دنیا میں جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی کہ اس تیزی سے وسائل مہیا نہیں ہو رہے۔ 1950میں 2.5ارب آبادی والی دنیا صرف ساڑھے چھ دہائیوں میں ہی 7ارب کا ہندسہ کراس کر گئیماہرین کا کہنا کہ اس دن کے منانے کا مقصد آبادی پر کنٹرول نہیں بلکہ لوگوں میں یہ آگہی پیدا کرنا ہے کہ اگروسائل کی عدم موجودگی میں اسی تیزی کے ساتھ دنیا کی آبادی بڑھتی گئی تو آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟۔
اقوام متحدہ کی پورٹ کے مطابق سن دو ہزار تیس تک دنیا کی آبادی آٹھ عشاریہ پانچ ارب ہونے کی توقع ہے جبکہ سن دو ہزار پچاس تک یہ بڑھ کر تقریباً نو عشاریہ سات ارب ہو جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی گیارہ عشاریہ دو ارب ہونے کی توقع ہے پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ 18کروڑ کی کْل آبادی کا 40 فیصد10 سے 29 برس کے درمیان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں بہبود آبادی کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے پاپولیشن کونسل اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی موجود شرح سے بڑھتی رہی تو 2050ء تک اس ملک کی آبادی 342 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار مسائل آبادی میں اضافے سے جڑے ہوئے ہیں ان میں سے ایک بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی فراہمی ہے۔علاج، رہائش، تعلیم اور دیگر بنیادی اشیاء جو انسان کے لیے ضروری ہیں۔ اگرچہ کچھ ممالک نے ذرائع ابلاغ اور میڈیکل سائنس میں ترقی اور تعلیم کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کے مسئلے پر قابو تو پا لیا گیا مگر کچھ ممالک میں آبادی میں کمی آرہی ہے۔ دوسری طرف دنیا بھر کی نصف آبادی ا یسے لوگوں کی ہے جو 25سال سے کم عمر ہیں۔غریب ممالک میں آبادی پر کنٹرول آسان نہیں۔ جبکہ انہی ممالک میں خواتین کے لئے صحت کی سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
Poverty
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک مسائل کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں آبادی کو کنٹرول کرنے اور مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک واضح حکمت تیار کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ترقی پذیر ممالک میں غیر مستحکم سیاسی نظاموں کی بنا پر آبادی سے متعلق معاملات کو ترجیح نہیں دی جاتی اور کچھ ممالک میں آبادی پر کنٹرول کے لئے پالیسی سازی میں روایتی اور مذہبی نظریات آڑے آتے ہیں۔ ایسے میں تعلیم اور طبی سہولتوں میں سرمایہ کاری ہی بہترین حل ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار ملک ہے۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی20کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ وسائل میں اسی شرح سے اضافہ نہیں ہو سکا۔
ماہرین کا کہنا کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سماجی اور مذہبی جماعتوں کو بھی عوام میں یہ شعور پیدا کرنا چاہیے ۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیے حکومت کو شرح آبادی کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس سپیڈ سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس رفتار سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہورہے۔ پاکستان میں صحت ، تعلیم ، بیروزگاری جیسے مسائل پر قابونہ پانے کی وجہ بھی آبادی میں اضافہ ہے۔
حکومت پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے آبادی میں اضافے کی شرح کی طرح مسائل کوبھی اسی طرح حل کرناہوگا۔ غربت میں اضافہ بھی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو آبادی میں اضافے کی رفتار پر کنٹرول کرناہوگا جس کے لیے ہرشخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرناہوگا۔اس کے بعد ہی ہم تعلیمی میدان، صحت کے میدان، بیروزگاری کے میدان اوردیگرمیدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ سکتے ہیں۔