تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف نے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کا عز م کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم اور فوج نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے اور ملک میں امن قائم کرنے کے لیے بھاری قیمت ادا کی، ان قربانیوں کو ضائع نہیں جانے دیا جائے گا، فاٹا کو کلیئر کرا لیا گیا ہے اور ملک بھر میں چھپے دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھا جائے گا۔ہم اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ دہشت گردوں کو پھر سر نہیں ابھارنے دیا جائے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہر حال میں جاری رکھا جائے گا اور مکمل کیا جائے گا”۔ فوج کے سربراہ کی یہ باتیں فوجی جوانوں ہی نہیں، پوری قوم کا عزم اور حوصلہ بڑھانے کا باعث’ اور اس امر کا ثبوت ہیں کہ کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے فوج کا جوش اور ولولہ کم نہیں ہوا، بلکہ پہلے کی نسبت بڑھ گیا ہے اور وہ دن دور نہیں جب ملک بھر میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا مکمل خاتمہ کرکے چند سال پہلے والا امن بحال کر دیا جائے گا
جب یہاں ہر طرح سے سکون اور شانتی تھی اور قوم کا ہر فرد پورے احساس تحفظ کے ساتھ ملک کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ یہ عید اور اسی طرح کے گزشتہ کئی تہوار اور مواقع اگر امن اور سکون کے ساتھ منائے جا سکے اور اس دوران معاشرے کا امن تباہ کرنے اور عوام کے اعصاب مختل کرنے والا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا تو یہ فوج کی طرف سے کی گئی کاوشوں اور دی گئی قربانیوں کا ہی نتیجہ اور حاصل ہے۔ دو برس قبل اگر آپریشن ضرب عضب شروع نہ کیا جاتا تو آج ملک اور معاشرے کی نہ جانے کیا حالت ہوئی۔ فاٹا دہشت گردوں سے پاک کرایا جا چکا، اور پاک افغان سرحد پر انتظامات بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی ڈیورنڈ لائن کے آر پار آزادانہ آمد و رفت کو کنٹرول کیا جا سکے’ ان کے دونوں ملکوں میں نفوذ کو روکا جا سکے۔
اب آپریشن کا دوسرا مرحلہ درپیش ہے، یعنی شہروں کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے حامیوں اور سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا، کیونکہ آرمی چیف اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ جب تک یہ رسد اور کمک منقطع نہیں کی جائے گی، اس وقت تک فوج کے ہر آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی طاقت بحال ہو جاتی رہے گی۔ یہ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد فوج اور ملک بھر کی سیاسی قوتوں کے کئی دنوں کے سوچ بچار اور صلاح مشورے کے بعد وضع کیے گئے قومی ایکشن پلان کا بھی حصہ ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے معاشرے میں چھپے دہشت گردوں کے ساتھیوں کے خلاف بھی قانون کو حرکت میں لایا جائے گا’ ان کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
Pak Army
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں فوج نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کیں’ اور آئندہ بھی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن سول انتظامیہ کی جانب سے اس سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، جس کی ضرورت تھی۔ الٹا یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوج اور اس سے منسلک دوسرے اداروں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ اندازہ سیاسی بیانات کے بارے میں رینجرز کی جانب سے ظاہر کیے گئے تحفظات سے لگایا جا سکتا ہے۔ سندھ رینجرز نے کراچی کے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی جماعت کی بیرون ملک مقیم قیادت اپنی تقریروں میں میڈیا، فنکاروں اور تاجروں پر حملوں کے لیے اکسا رہی ہے۔ ترجمان رینجرز کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایک سیاسی جماعت کی بیرون ملک قیادت اشتعال انگیز تقریروں اور بیانات سے کراچی کے امن کے لیے چیلنج کی صورت حال پیدا کر رہی ہے، اشتعال انگیز تقریروں میں طلبہ اور مخصوص گروہ کو ریاستی اداروں، میڈیا اور فنکاروں پر حملوں کے لیے اکسایا جا رہا ہے اور کراچی میں بدامنی کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ترجمان کے مطابق رینجرز بدامنی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب بنانے کے لیے اس سیاسی عمل کو روکنا ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سول انتظامیہ بھی اپنی استعداد کار میں اضافہ کرے تاکہ فوج جو علاقے دہشت گردوں سے پاک کر رہی ہے، وہاں کے انتظامات سول حکومت سنبھال سکے، کیونکہ یہ طے ہے کہ فوج آپریشن کرکے دہشت گردوں کا قلع قمع تو کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے وہاں تادیر ٹھہر کر انتظامات سنبھالنا ممکن نہیں۔ یہ کام بہرحال سول انتظامیہ کو ہی کرنا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ غیر معمولی صورت حال میں غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سول حکام کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ یہ غیر معمولی اقدامات کیا ہو سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان عوامل اور اسباب کو بھی کنٹرول کیا جائے’ جو دہشت گردی اور انتہا پسندی بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ سول حکومت کو ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے۔ وسائل کا ضیاع نہ ہو، عام آدمی کے مسائل حل ہوں تو کوئی بھی انتہا پسندی کی طرف نہیں جاتا۔ حال ہی میں عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے بارے میں سر جان چلکوٹ کی مرتب کردہ رپورٹ جاری کی گئی ہے’ جس میں ان عوامل کا جائزہ لیا گیا جو دہشت گردی بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے اس رپورٹ سے اگر کچھ مدد مل سکتی ہے تو ضرور لی جانی چاہیے۔ اس رپورٹ کے جائزے سے عالمی برادری کی توجہ افغانستان، کشمیر اور فلسطین میں بسنے والے خون ناحق کی طرف توجہ دلانے میں مدد مل سکتی ہے’ تو اس بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔