تحریر : سید توقیر زیدی اب یہ کوئی انکشاف تو نہیں لیکن غالباً سابق وزیراعظم شوکت عزیز پہلی دفعہ یہ بات کہتے سنے گئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت سے تمام معاملات طے پاگئے تھے، لیکن پھر وہ حکومت ہی ختم ہوگئی جس کے ساتھ یہ معاملات طے پائے تھے، ان کا اشارہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت سے ہے جو اس وقت بھارت کے وزیراعظم تھے، جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف صدر اور شوکت عزیز وزیراعظم تھے۔ منموہن سنگھ بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے کہ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک شروع ہوگئی، جنہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو غیر قانونی طور پر عہدے سے الگ کر دیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ شوکت عزیز پاک سٹیل کو ہر حالت میں فروخت کرنے پر تلے ہوئے تھے اور متوقع خریدار جو قیمت ادا کرنا چاہتے تھے وہ سوت کی اٹی کے عوض یوسف کو خریدنے کے مترادف تھی، اس معاملے میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کی رائے یکساں تھی کہ اس سفید ہاتھی سے جو مسلسل خسارے کا باعث تھا۔
ہر حالت میں جان چھڑائی جائے۔ یاد پڑتا ہے ایک بار شوکت عزیز نے یہ تک فرما دیا تھا کہ انہیں معاشی ماہرین نے یہ مشورہ دیا ہے کہ سٹیل مل اگر ایک روپے میں بھی فروخت کرنی پڑے تو یہ سستا سودا نہیں کیونکہ اس کا سالانہ خسارہ قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کا نوٹس لے لیا اور مقدمے کی سماعت کے بعد حکومت کو سٹیل ملز کی فروخت سے روک دیا۔ سٹیل مل سے جان تو نہ چھوٹی ،غالباً ایسے ہی واقعات تھے جن کی وجہ سے حکومت نے چیف جسٹس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا، وزیراعظم شوکت عزیز نے صدر کو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجا جو انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا لیکن یہ ریفرنس بھیج کر سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کا انتظار کرنے کی بجائے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں طلب کرلیا اور انہیں ریفرنس کے کاغذات دکھا کر ان سے استعفا طلب کیا۔
چیف جسٹس نے انکار کیا تو صدر کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے آرمی ہاؤس میں موجود دوسرے جرنیلوں کے سامنے ایک گالی دے کر کہا کہ اس۔۔۔ سے استعفا لو۔ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وقت ثابت کرے گا، اس گالی کا اصلی مصداق کون ہے؟ یوں یہ ملاقات تلخ کلامی اور بدمزگی پر ختم ہوئی اور استعفے کا معاملہ لٹک گیا، اس ناخوشگوار ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے سپریم کورٹ جانا چاہا تو ان کا راستہ روکا گیا، گھر جانے لگے تو ان سے بدتمیزی کی گئی، انہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ ان واقعات کے بعد چیف جسٹس کی جبری علیحدگی اور گھر میں نظر بندی کی نوبت آگئی تو وکلاء نے اس کے خلاف تحریک شروع کر دی۔
Pakistan and India
یہی ایام تھے جب بھارت کے ساتھ کشمیر پر بیک چینل مذاکرات شروع تھے، جن کے بارے میں اب شوکت عزیز کہتے ہیں کہ سارے معاملات طے ہوگئے تھے اور برطانیہ کی پس پردہ حمایت بھی ان مذاکرات کو حاصل تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سارے معاملات طے ہوگئے تھے تو پھر انہیں منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچایا گیا؟ باخبر حلقے اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جب بھارت نے دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع ہوگئی ہے جس کی کامیابی کے واضح آثار ہیں، عین ممکن ہے بھارت اس نتیجے پر پہنچا ہو کہ یہ جھٹکا پرویز مشرف کیلئے قابل برداشت نہیں ہوگا، چنانچہ اس نے کشمیر پر معاملات طے ہونے کے باوجود اس ضمن میں خاموشی اختیار کرلی اور اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے وہ پاکستان میں واقعات کی رفتار کا باریک بینی سے جائزہ لینے لگا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کے خدشات درست ثابت ہوتے ہوئے نظر آئے، پاکستان میں بینظیر بھٹو کے ساتھ این آر او ہو جانے اور پارلیمنٹ سے صدر منتخب ہو جانے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن کمزور ہوتی چلی گئی، این آر او ہو جانے کے بعد جنرل پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو میں غیر تحریری طور پر یہ طے ہوگیا تھا کہ وہ انتخاب کے بعد واپس آئیں گی، لیکن وہ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی واپس آگئیں تو اسے ”معاہدے” کی خلاف ورزی تصور کیا گیا اور ان کے استقبالی جلوس میں دو خوفناک بم دھماکے ہوگئے۔
بینظیر بھٹو ان میں محفوظ رہیں لیکن دو ماہ دس دن بعد 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ان کا آخری وقت آپہنچا۔ اب ان حالات میں بھارت، جنرل کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی حماقت نہیں کرسکتا تھا۔ بینظیر بھٹو کے بعد انتخابات ہوئے جن میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آگئی۔ تاہم جنرل پرویز مشرف زیادہ عرصے تک اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور اگست 2008ء میں مستعفی ہوگئے۔
Khurshid Mehmood Kasuri
کشمیر پر جب پس پردہ مذاکرات ہو رہے تھے اس وقت خورشید محمود قصوری وزیر خارجہ تھے، انہوں نے بھی شوکت عزیز سے ملتی جلتی بات کی تھی اور اپنی خود نوشت انگریزی سوانح ”نہ فاختہ نہ عقاب” میں اجمالاً یہ بات لکھی بھی ہے لیکن جو بات اب تک کھل کر نہیں کہی گئی، وہ یہ ہے کہ آخر وہ کیا معاملات تھے جو کشمیر کے متعلق طے ہوگئے تھے۔ اتنا تو واضح ہے کہ جنرل پرویز مشرف ایسی تجاویز سامنے لے آئے تھے جو کشمیر پر پاکستان کے روایتی موقف کے مطابق نہ تھیں، انہوں نے کشمیر کو چار زونوں میں تقسیم کرنے کی بات بھی کی تھی، لیکن بھارت سے کیا طے ہوا تھا یہ بات نہ شوکت عزیز نے کھل کر کہی، نہ خورشید قصوری نے اور نہ ہی خود جنرل پرویز مشرف نے۔
البتہ اتنا اندازہ تو لگایا ہی جاسکتا ہے کہ جو بھی بات چیت ہو رہی تھی وہ جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کی روشنی میں ہی ہو رہی ہوگی، کیونکہ نہ تو وزیراعظم شوکت عزیز اور نہ ہی وزیر خارجہ خورشید قصوری کسی ایسے سلسلے کو آگے بڑھانے کی پوزیشن میں تھے، جسے صدر پرویز مشرف کی حمایت حاصل نہ ہوتی۔
اس لئے یہ امر تو یقینی ہے کہ وہ انہی کے منصوبے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بھارت بھی یہ سب کچھ مان رہا تھا تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اسے اس منصوبے کو قبول کرنے میں کچھ فوائد تو نظر آئے ہوں گے ورنہ یہ جو اٹوٹ انگ کی رٹ لگائی جاتی ہے، اس کے ہوتے ہوئے وہ کوئی ایسا منصوبہ کیونکر قبول کرسکتا تھا جو پاکستان کے مفاد میں ہوتا اور جسے بھارتی عوام آسانی سے قبول نہ کرتے۔